ہبہ رحمانی، ناسا کی پاکستانی خاتون انجینئر

ہبہ ناسا کے انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ڈائریکٹوریٹ میں ایویونکس اینڈ فلائٹ کنٹرولز انجینیئر ہیں

جذبے اور بڑے خواب رکھنے والی ہبہ رحمانی پاکستان میں پیدا ہونے والی ایک خاتون ہیں جنہوں نے جنگِ خلیج کو بھگتا، کئی روز ایک مہاجر کیمپ میں گزارے اور پھر امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ‘ناسا’ میں انجینیئر بنیں۔

رات کے خوبصورت آسمان کو پسند کرنے والی ہبہ بہت کم عمری میں ہی سائنس، خلا اور فلکیات میں دلچسپی رکھنے لگی تھیں۔

آج وہ ناسا کے انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ڈائریکٹوریٹ میں ایویونکس اینڈ فلائٹ کنٹرولز انجینیئر ہیں جو فلوریڈا کے کینیڈی اسپیس سینٹر سے راکٹ لانچ میں مدد دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی خاتون فوربس کی نیکسٹ 1000 لسٹ میں شامل

ہبہ رحمانی پاکستان میں پیدا ہوئی تھیں لیکن وہ چند مہینوں کی ہی تھیں کہ ان کا خاندان کویت منتقل ہو گیا۔

"کویت میں گزارے گئے دنوں کی ایک یاد رات کو چہل قدمی کی ہے، ہم صحرا میں یا پھر خلیج کے ساحل کے ساتھ ساتھ چہل قدمی کرتے اور اس دوران میں آسمان پر چاند تارے دیکھ کر نیل آرمسٹرانگ اور ان جیسے خلا بازوں کے بارے میں سوچتی تھی، جنہوں نے چاند پر قدم رکھا۔”

تب اگست 1990ء میں عراق نے کویت پر حملہ کر دیا۔ دنیا بھر نے اس حملے کی مذمت کی اور شہریوں کو جنگ سے بچنے کے لیے صحرا پار کر کے مغرب کی جانب ہجرت کرنا پڑی۔ ہبہ، ان کی والدہ اور بہن بھی انہی میں شامل تھیں جو ایک بس کے ذریعے بالآخر عراق اور اردن کی سرحد کے قریب ایک علاقے میں پہنچیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ "ہم رات کے وقت پہنچے تھے۔ ہمیں کوئی خیمہ نہیں ملا کیونکہ جتنے خیمے موجود تھے وہ پہلے ہی لوگوں کو مل چکے تھے۔ گو کہ یہ بہت مشکل وقت تھا لیکن اس رات کی جو بات مجھے یاد ہے وہ آسمان کا خوبصورت نظارہ تھا۔”

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی خواتین، نئی بلندیوں کی جانب گامزن

چند روز اردن میں رہنے کے بعد ہبہ رحمانی اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آ گئیں۔ ان کے والد اس وقت امریکا میں تھے لیکن وہ بھی اپنے خاندان سے ملنے کے لیے پاکستان چلے آئے۔

جنگ کے خاتمے کے بعد یہ خاندان ایک مرتبہ پھر کویت منتقل ہو گیا اور ہبہ کی ایک انجینیئر بننے کی جدوجہد کا سلسلہ وہیں سے شروع ہو گیا۔

"میرے والدین ہمیشہ اچھی تعلیم اور سخت محنت پر زور دیتے تھے۔ ریاضی اور سائنس اسکول میں میرے پسندیدہ مضامین تھے۔ ریاضی ہمیشہ سے میرے والد کا پسندیدہ مضمون رہا اور وہ ہمیں کہتے تھے کہ مجھے اس میں پورے 100 نمبر لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔”

کویت میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ 1997ء میں امریکا منتقل ہوئیں اور یہاں انہوں نے یونیورسٹی آف سینٹرل فلوریڈا سے کمپیوٹر انجینیئرنگ میں بیچلرز کی تعلیم حاصل کی۔

مجھے یاد ہے کہ فزکس یعنی طبیعیات میری پہلی مشکل کلاس تھی اور پہلے امتحان میں کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا پائی۔ میں لائبریری گئی اور گھنٹوں وہاں گزارنا شروع کر دیے، جہاں میں طبیعیات کی کتابیں پڑھتی اور مشق کرتی۔ جب آخری امتحان کا وقت آیا تو میں نے حساب لگایا کہ مجھے کلاس میں ‘اے’ گریڈ حاصل کرنے کے لیے 100 نمبروں کی ضرورت تھی۔ یقین نہیں آتا کہ مجھے 105 نمبر ملے۔ میں نے بونس سوال بھی ٹھیک کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ "اس تجربے نے مجھ پر واضح کیا کہ مستقل محنت اور حوصلے سے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے اور کبھی اپنے اہداف اور خوابوں کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔”

2000ء میں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد ہبہ رحمانی کو سسٹمز انجینیئرز کی حیثیت سے بوئنگ میں ملازمت مل گئی جہاں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے حوالے سے کام ہو رہا تھا۔

ہبہ کہتی ہیں کہ "مجھے معلوم تھا کہ ایک خلا نورد بننے کے لیے مجھے بہتر ڈگری کی ضرورت ہوگی۔ اس لیے 2002ء سے 2005ء کے دوران میں نے جارجیا ٹیک سے الیکٹریکل اور کمپیوٹر انجینیئرنگ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔”

‏2008ء میں ہبہ کو ناسا کے انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ڈائریکٹوریٹ میں ملازمت ملی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی خاتون کی جدوجہد کا نتیجہ، امریکا میں ‘نائلہ قانون’ منظور

"میں ناسا کے لانچ سروسز پروگرام پر کام کرتی ہوں۔ میرا کام تکنیکی نوعیت کا ہے اور میں انجینیئرنگ کے مسائل کے تکنیکی جائزے فراہم کرتی ہوں۔ میرے کام کا سب سے اچھا اور دلچسپ تجربہ راکٹ کو لانچ پیڈ سے پرواز کرتے اور خلا میں جاتے دیکھنا ہے۔”

اپنے فارغ وقت میں ہبہ کو مصوری کا شوق ہے جبکہ وہ غوطہ خوری کی بھی شوقین ہیں۔ وہ ایک دن خلا نورد بننا چاہتی ہیں۔

گزشتہ روز جب اسلام آباد میں واقع امریکی سفارت خانے نے ہبہ رحمانی کے حوالے سے ایک ٹوئٹ کیا تو کئی پاکستانیوں نے انہیں خوب سراہا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے