میں شامیانے کے قریب پہنچی تو حیران رہ گئی۔ بے انتہا قیمتی آرائش اور مہنگا فانوس لگا کر داخلی دروازہ سجایا گیا تھا۔ جگہ جگہ رنگ برنگی اور رنگ بدلتی لائٹس لٹک رہی تھیں۔ آگے ایک راہداری بنائی گئی جہاں اسی طرح قدآدم گلدان سجے تھے۔ تازہ پھولوں کی مہک تھی۔ راہداری کے اندر تک خوبصورت روشنی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جہاں یہ راہداری ختم ہوتی تھی، وہاں ایک بڑا سا آئینہ نصب تھا۔ اور اس کے اوپر سپاٹ لائٹس لگی تھیں۔ ساتھ ہی تازہ پھولوں کے گلدستے ترتیب سے رکھے تھے۔
یہاں سے جب اندر پہنچی تو آنکھوں کو خیرہ کردینے والے مناظر تھے۔ روشنیاں، مہنگے فانوس، قطار میں لگی میزیں اور ان پر خوشبودار موم بتیاں، میوزک کا اہتمام اور بےانتہا آرام دہ صوفے لگائے ہوئے تھے۔ شامیانے کے بیچ و بیچ ایک عارضی فرش تیار کیا گیا تھا۔ جو شیشے سے بنایا گیا تھا۔ اس کے نیچے خوبصورت پھول بچھائے گئے تھے جو چلتے ہوئے اوپر سے بڑے خوبصورت معلوم ہوتے تھے۔
ذرا آگے جاکر درمیان میں ایک پلیٹ نما گھومنے والا فرش بنایا گیا تھا۔ جس پہ دلہا دلہن کو فوٹو شوٹ اور ویڈیوز کے دوران کھڑا کیا جانا تھا۔ یہاں سے ان کے مین سٹیج تک جانے کے لیے بہت ہی شاندار راہداری بنائی گئی تھی۔ سٹیج بھی بے انتہا خوبصورت تھا۔ جس کا پس منظر بھی تھوڑی دیر بعد بدل جاتا تھا۔ روشنیوں اور پھولوں کی بہتات تھی، ایک طرف کھانے کا انتظام تھا۔ جب کہ دوسری طرف بچوں کے لیے کھیلنے کا سامان رکھ کر پلے ایریا بنایا گیا تھا۔ غرض کہ ہرشے اتنی شاندار تھی کہ آنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
یہ بھی پڑھیں:
” صبر سے تھپڑ تک ” ۔۔۔ آمنہ خرم
ادھر ادھر زرق برق لباسوں اور بے تحاشا جیولری، زیورات سے لدی ہوئی خواتین پھر رہی تھیں۔ جنہوں نے پارلر سے میک اپ کروا رکھا تھا۔ بلاشبہ حسن بکھیرتی اور سجی سنوری ان خواتین کو دیکھ کر ہی گمان ہورہا تھا کہ یقیناً بہت کھاتے پیتے گھرانے سے ہیں۔ شامیانے میں جگہ جگہ ڈرون کیمرے بھی اڑ رہے تھے۔ دلہا دلہن انتہائی قیمتی لباس میں ہاتھوں میں ہاتھ لیے تصاویر بنوا رہے تھے۔ میرے ساتھ والے ٹیبل پر کچھ غیرشادی شدہ لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ حسرت چہروں پر عیاں تھی کہ کاش ہماری بھی ایسے ہی شادی ہو۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے شاید کسی مشہور سلیبرٹی کی شادی اٹینڈ کی ہے۔ جس کا حال بیان کیا ہے ۔یا پھر کوئی منسٹر باپ کا بیٹا ہوگا تو بتادوں کہ یہ ایک نہایت متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے گھرانے کی شادی کا حال بیان کیا ہے۔
یہ گھرانہ ہمارے ساتھ ہی پلا بڑھا ہے۔ سارے حالات ہمارے سامنے ہیں کہ کس طرح والد ایک چھوٹے سے سرکاری ملازم ہیں اور گزارہ بھی بمشکل ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو ادھار بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ بجلی وغیرہ بھی نہایت کفایت سے استعمال ہوتی ہے کہ بل زیادہ نہ آجائیں اور بچے بھی نارمل لیول کے سکولوں میں پڑھائے ہیں۔ لیکن ان کی والدہ صاحبہ کا کہنا تھا کہ ایسے موقعوں پر اگر فنکشن معیار کے مطابق نہ ہو تو عزت کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ لہذا بہت ضروری ہے کہ کسی نہ کسی طرح لڑکے کا فنکشن شاہانہ انداز میں ہونا چاہیے کہ لوگ برسوں یاد رکھیں۔ نہ جانے کتنا قرض لے کر یہ سب انتظامات کیے ہوں گے۔ اور کب تک ادا کرتے رہیں گے۔
کھانے کا انتظام بھی بہت وسیع پیمانے پر کیا گیا تھا۔ ڈھیروں ڈشز تھیں۔ لیکن خواتین اس میں سے بھی نقص نکالنے میں پیش پیش تھیں کہ قورمے میں مرچیں بہت تیز ہیں۔ رشین سلاد کم ہے، بوتلیں زیادہ ٹھنڈی نہیں ہیں۔ بریانی کے چاول زیادہ نرم ہوگئے ہیں۔ یعنی اتنے اہتمام کے باوجود بھی لوگ خوش نہیں تھے۔ ان کی ایک بیٹی بیوہ ہوچکی ہے۔ شادی کا موقع ہے وہ بھی دل خوش کرنے کے لیے اچھے سے تیار ہوگئی تو اس پر طنز کیے جارہے تھے کہ اسے تو میاں کا غم ہی نہیں۔ لو، لال رنگ پہن کر بیٹھی ہے۔ سسرال والوں کو تو پوچھا بھی نہیں۔ ہاں دوبارہ شادی کا ارادہ لگتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
"کچھ علاج اس کا بھی”۔۔۔آمنہ خرم
اب تو میرا وہاں بیٹھنا محال ہوگیا۔ مجھے بہت افسوس ہورہا تھا کہ انہی لوگوں کی وجہ سے اتنا خرچ کیا ہوگا مگر یہ کسی حال میں بھی خوش نہیں۔ اللہ اللہ کرکے فنکشن ختم ہوا اور میں نے گھر کی راہ لی۔ مگر مجھے عجیب سے ملال نے گھیرلیا کہ کاش جو پیسہ اتنی نمود ونمائش پر خرچ کیا انہی بچوں کی فلاح وبہبود پہ خرچ کردیتے۔ کیا اسلام نے ہمیں سادگی سے نکاح کا درس نہیں دیا۔ یقیناً اس کی وجہ بھی اسی دکھاوے سے جان چھڑانا تھی۔ ایسی شادی کو زیادہ بابرکت کہا گیا جس پر کم خرچ آئے۔
ہم کس دوڑ میں چل نکلے ہیں۔ کن کی پیروی کرنے لگے ہیں۔ کس سے اپنی ناک بچاتے پھررہے ہیں۔ لاکھوں کے ڈریسز اور زیورات اور بلا جواز رسومات پیسے کا ضیاع نہیں تو اور کیا ہے۔ اور فنکشن ابھی ختم بھی نہیں ہوتا کہ گھروالے نئی آنے والی کے خلاف اور نئی آنے والی گھروالوں کے خلاف محاذ کھول کے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ کہیں محلے والے ساس صاحبہ کو بہو کو قابو میں رکھنے کے نسخے بتاتے ہیں۔ تو کہیں سسرال میں جا کر ناک میں دم کرنے کا ہنر سکھایا جاتا ہے۔
اس سب کے بیچ یہ مقصد کہیں دب جاتا ہے کہ اس شادی کے بندھن کا مقصد دو لوگوں کی نئی زندگی کی شروعات ہے۔ کیسے ان کے لیے اس مرحلے کو سہل بنایا جائے کہ ان میں ہم آہنگی ہو، وہ دل سے خوش ہوں۔ اور شادی کے جو حقیقی مقاصد و فوائد ہیں وہ حاصل ہوں۔
اس سب کے دوران ایک اور بات بھی بہت تکلیف دہ تھی کہ ان کی بیوہ بیٹی کو جس طرح فنکشن میں خلائی مخلوق والا درجہ دیا گیا جیسے خدانخواستہ اس کے نصیب کی سیاہی بھائی کے مقدر میں بھی نہ لگ جائے۔ میں سوچ رہی تھی کہ فنکشن کے بعد ایک طویل طنز کی فہرست ہوگی جو دونوں طرف سے برابر نشر ہوگی کہ یہ معیار کا نہیں، جھمکے نہیں ملے، فوٹو شوٹ غیرمعیاری تھا، دودھ پلائی پہ کم پیسے دیئے، وہ چیز کم ہے، ولیمہ کا کھانا ایسا، بارات کا کھانا ویسا۔ بلا، بلا، بلا۔
ان لوگوں کو کون بتائے گا یہ سب ہمارا کلچر نہیں ہے۔ بچے کی شادی کا مقصد بچے کی خوشی ہے نہ کہ لوگوں کو دکھانا۔ یہ کوئی مقابلے کا امتحان نہیں ہے۔ نہ ہی بے تحاشہ لٹانے سے عزت میں اضافہ ہوجاتا ہے، بلکہ دوسروں کے لیے ایک احساس کمتری کو جنم دیتا ہے۔ جو آپ کی عزت کرتے ہیں وہ ہرحال میں کریں گے۔ خود کو مشکل میں ڈال کر اتنی پُرتعیش تقریب منعقد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر آپ خرچ کر بھی سکتے ہیں تب بھی اس پیسے کو اپنے بچے کے مستقبل کے لیے خرچ کریں۔
یہ بھی پڑھیں:
کینسر میں مبتلا 44 فیصد خواتین سینے کے سرطان کی شکار
ایک اور اہم بات کہ طلاق یافتہ یا بیوہ خواتین کو بلا وجہ برا بھلا کہنا بہت غلط ہے۔ ہمارے نبیﷺ کی بیٹی کو بھی طلاق ہوئی تھی۔ خود آنحضرتﷺ نے بھی طلاق یافتہ خواتین سے شادی کرکے یہ ثابت کیا کہ یہ ایک احسن قدم ہے۔ اور یہ کہ ضروری نہیں غلطی خاتون ہی کی ہو۔
اپنے بچوں کی شادیاں کرتے ہوئے یا وہ نوجوان بچے اور بچیاں جو میری تحریر پڑھ رہے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اس رشتے کو جوڑتے ہوئے بنیادی مقاصد ذہن میں رکھیں نہ کہ کسی سلیبرٹی کی شادی یا کسی ڈیزائنر کے لباس کو۔ نکاح اور شادی بیاہ کی تقریبات کو حتی المقدور سادہ رکھیے تاکہ اس کی اصل برکات سے فیض یاب ہوسکیں۔
جواب دیں