مزارِ قائد کی حدود میں ایک خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کے مقدمے کی از سرِ نو سماعت میں بھی تینوں ملزمان کو بری کر دیا گیا ہے۔
مزار کے اُس وقت کے اسسٹنٹ مینیجر سکیورٹی، ایک اکاؤنٹنٹ اور مزارِ قائد مینجمنٹ بورڈ کے ایک ریزیڈنٹ انجینیئر کے پرسنل اسسٹنٹ پر مارچ 2008ء میں ایک خاتون پر جنسی حملہ کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج (شرقی) غلام مصطفیٰ لغاری نے شواہد اور فریقین کے دلائل کی بنیاد پر یہ فیصلہ سنایا۔
رواں سال مئی میں سندھ ہائی کورٹ نے تینوں ملزمان کو بری کرنے کا معاملہ واپس سیشنز کورٹ میں بھیجا تھا اور تین ماہ کے اندر اس کی از سرِ نو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ پولیس پہلے ہی دو ملزمان کو مفرور قرار دے چکی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت، 15 سالہ لڑکی کے ساتھ 33 مرتبہ گینگ ریپ، 29 ملزمان گرفتار
دوبارہ سماعت میں مظلوم خاتون کی وکیل آمنہ عثمان نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے اپریل 2013ء میں مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کے بجائے حدود آرڈیننس کی بنیاد پر ملزمان کو بری قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ڈی این اے کا میچ ہو جانا صاف ظاہر کرتا ہے کہ تینوں ملزمان گینگ ریپ میں شامل تھے۔ انہوں نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ ملزمان کو قانون کے مطابق سزائیں دی جائیں۔
دوسری جانب وکیل دفاع ارشد لودھی نے کہا کہ عدالت میں 10 گواہان کو پیش کیا گیا لیکن کسی نے ملزمان کو شناخت نہیں کیا یا یہ نہیں کہا کہ انہوں نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خاتون بھی پولیس کے سامنے اور عدالت میں ملزمان کو شناخت نہیں کر پائیں۔
انہوں نے کہا کہ مبینہ طور پر خاتون کے کپڑوں سے حاصل کردہ ڈی این اے بھی ملزمان سے نہیں ملتے۔ بلکہ عدالت میں یہ کپڑے بطور ثبوت پیش تک نہیں کیے گئے۔ فرانزک اور کیمیائی تجزیے کی رپورٹیں بھی اس مقدمے کو مشکوک بناتی ہیں۔ انہوں نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے مؤکلین کو غلط اور من گھڑت الزام سے بری قرار دیں۔
اپریل 2013ء میں ملزمان کو پہلے ٹرائل میں بری کرتے ہوئے اس وقت کی عدالت نے ڈی این اے کو ثبوت ہی تسلیم نہیں کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: خیرپور، تین افراد کا طالبہ کے ساتھ 7 مہینوں تک گینگ ریپ
عدالت نے کہا تھا کہ شناخت پریڈ کے دوران خاتون نے صرف ایک شخص کو پہچانا تھا، لیکن مجسٹریٹ کی جانب سے شواہد پیش کرنے کے دوران ٹرائل کورٹ میں اقرار کیا گیا کہ خاتون نے یہ نہیں کہا تھا کہ اس شخص نے یہ جرم کیا ہے، جس کی وجہ سے شناخت کا کوئی قانونی وزن نہیں رہا۔
عدالت نے فیصلہ کیا کہ طبی رپورٹوں کے مطابق خاتون کے جسم پر تشدد کے کوئی نشان نہیں تھے۔
استغاثہ کے مطابق 18 سالہ لڑکی کو 15 مارچ 2008ء کی رات تقریبآً پانچ افراد نے مزار کے احاطے سے اغوا کیا تھا۔ وہ 17 مارچ کو مزار کے قریب بے ہوشی کے عالم میں ملی۔ خاتون کا تعلق لودھراں سے ہے اور وہ اپنے شوہر اور دیگر رشتہ داروں کے ہمراہ 15 مارچ 2008ء کو کراچی پہنچی تھیں اور رات کے وقت مزارِ قائد پر آئیں۔ دونوں میاں بیوی خاندان کے دیگر لوگوں سے پہلے مزار کے احاطے میں داخل ہوئے۔ البتہ کچھ دیر بعد شوہر خاندان کے باقی افراد کو لینے کے لیے نکل گیا کہ جو باہر بس میں موجود تھے۔ عینی اسی دوران بجلی چلی گئی اور تب خاتون کو ملزمان نے اغوا کر لیا اور ایک کمرے میں لے گئے جہاں اسے زبردستی نشہ آور اشیا بھی کھلائی گئیں اور اس کے ساتھ گینگ ریپ بھی کیا گیا۔
20 مارچ 2008ء کو مزار کے اسسٹنٹ مینیجر سکیورٹی کو گرفتار کیا گیا تھا جب خاتون نے اسے شناخت پریڈ کے دوران پہچانا، جبکہ دیگر دو افراد کو ڈی این اے رپورٹ کے بعد گرفتار کیا گیا جس سے اس گھناؤنے جرم میں ان کی شمولیت کا پتہ چلا۔ بعد ازاں تمام ملزمان کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔
جواب دیں