فکر مند افغان لڑکیاں اسکول کھلنے کی منتظر

سات سے 12 سال کی عمر کے لڑکوں کو تو تعلیم کی اجازت ہے لیکن لڑکیوں کے لیے

افغانستان کی لاکھوں نو عمر لڑکیاں شدت سے اپنے اسکول کھلنے کا انتظار کر رہی ہیں کیونکہ ملک میں بدستور ہائی اسکول بند ہیں اور طالبان دور میں خواتین کی تعلیم کے مستقبل پر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔

ملک کے نئے حکمرانوں نے سات سے 12 سال کی عمر کے لڑکوں کو تو تعلیم کی اجازت دے دی ہے جو گزشتہ ماہ سے اسکول آنے لگے ہیں، لیکن لڑکیوں کی اسکول واپسی کے لیے "ایک محفوظ تعلیمی ماحول” کی ضرورت قرار دی جا رہی ہے۔

اس وقت طالبان کے نائب وزیر اطلاعات و ثقافت ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ طالبان نو عمر لڑکیوں کی کلاسز میں واپسی کے لیے "طریق کار” پر کام کر رہے ہیں۔

‏‏15 اگست کو افغانستان میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد پہلی نیوز کانفرنس میں ذبیح اللہ مجاہد نے "خواتین کو کام کرنے اور پڑھنے کی اجازت” کا عہد کیا تھا کیونکہ ملک میں طالبان کے گزشتہ دورِ حکومت 1996ء سے 2001ء میں خواتین کے حقوق کو کافی ٹھیس پہنچی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے، افغانستان میں خواتین کا غیر معمولی مظاہرہ

اب لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ مؤخر ہونے کی وجہ سے یہ خوف ایک مرتبہ پھر پیدا ہو رہا ہے کہ کہیں طالبان کا وہ سخت گیر دور واپس نہ آ جائے۔ وہ پانچ سال جدید افغان تاریخ کا واحد دور تھے کہ جس میں خواتین اور لڑکیوں کو قانوناً تعلیم اور ملازمت حاصل کرنے سے روکا گیا تھا۔

اقتدار میں آنے کے ڈیڑھ ماہ میں طالبان خاتون سرکاری ملازمین کو گھر پر رہنےکا کہہ چکے ہیں، ایک مکمل طور پر مردوں پر مشتمل کابینہ کا اعلان کر چکے ہیں، وزارت امورِ خواتین کو بند کر چکے ہیں اور ملک کے مختلف شہروں میں خواتین مظاہرین کو ہراساں کرنے کے الزامات کا بھی سامنا کر چکے ہیں۔

ایک تعلیمی ماہر تورپیکئی مومند کا کہنا ہے کہ یہ تاخیر اور ساتھ ہی طالبان کے اقدامات نے لڑکیوں کے ذہنوں میں خطرناک سوالات پیدا کر دیے ہیں "طالبان کو ہم سے مسئلہ کیا ہے؟ ہمارے حقوق ہی کیوں چھینے جا رہے ہیں؟”

ایک اسکول منتظم کی حیثیت سے 10 سال کام کرنے والی تورپیکئی افغانستان اور بیرونِ ملک موجود ان سینکڑوں خواتین میں سے ایک ہیں کہ جو یقینی بنانا چاہ رہی ہں کہ طالبان لڑکیوں اور خواتین اور اسکول اور دفاتر جانے کی اجازت دے کر اپنا وعدہ پورا کریں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کا انخلا اور افغان خواتین کو لاحق خطرات

ان بہت سی خواتین کے لیے اس جدوجہد کا مطلب ہے ایسے حالات کا مقابلہ کرنا ہے کہ جو طالبان اقتدار میں افغانستان میں زندگی کی حقیقتیں ہیں۔

جمیلہ افغانی ایک اور ماہر تعلیم ہیں جن کا کہنا ہے کہ افغان لوگوں کو طالبان کا سامنا کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے کیونکہ بین الاقوامی برادری نے انہیں تسلیم نہیں کیا۔ "ہم انہیں اقتدار میں نہیں لائے، آپ بھی نہیں لائے لیکن اب وہ حکمران ہیں، اس لیے ہمیں اپنی کوششیں جاری رکھنا ہوں گی۔”

ان دونوں ماہرین اور دیگر درجنوں خواتین کو طالبان سے جواب پانے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ جب ان کے ساتھی طالبان کی وزارت تعلیم کے حکام سے ملے تو انہیں بتایا گیا کہ نو عمر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے "سخت کوششیں” کی جا رہی ہیں۔

تورپیکئی نے کہا کہ طالبان اپنے الفاظ کے چناؤ میں بہت محتاط ہیں۔

"انہوں نے کبھی سامنے آ کر ‘نہیں’ کی صدا نہیں لگائی بلکہ یہی کہتے رہے ہیں کہ ‘ہم اس حوالے سے کام کر رہے ہیں،’ لیکن ہمیں کچھ نہیں پتہ کہ وہ آخر کام کیا کر رہے ہیں۔”

 

خواتین کا کہنا ہے کہ 100 سال سے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے جو ادارے افغان حکومتوں نے بنائے ہیں وہ مذہبی اصولوں کی ہمیشہ پاسداری کرتے ہیں۔ پرائمری اور سیکنڈی اسکولوں میں مخلوط تعلیم (کو ایجوکیشن) نہیں ہوتی اور لباس کے حوالے سے بھی ہمیشہ احتیاط برتی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان خواتین صحافت چھوڑنے لگیں

تورپیکئی نے کہا کہ انہیں اس حوالے سے مسلسل تاخیر پر طالبان کی مذہبی وجوہات کی دلیل سمجھ نہیں آتی، کیونکہ "لڑکیوں کے اسکول میں ہر فرد، یہاں تک کہ صفائی کا عملہ بھی ہمیشہ خواتین پر مشتمل ہوتا ہے۔”

البتہ جمیلہ افغانی کہتی ہیں کہ نصاب پر نظر ثانی وہ معاملہ ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے بچوں کی تعلیم میں تاخیر ہو رہی ہیں۔ "نصابی تبدیلیاں ایک وقت طلب اور مشکل کام ہیں۔”

یہ پہلو چند لوگوں کے لیے خاصا تشویش ناک ہے۔ فاطمہ حسینی ایک معروف فوٹوگرافر ہیں جو کابل یونیورسٹی کے شعبہ فائن آرٹس میں پڑھاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں مستقبل میں آرٹس پروگراموں کے مستقبل پر سخت پریشانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کابل یونیورسٹی میں سب سے کم فنڈز حاصل کرنے والا شعبہ آرٹ ہی ہے یہاں تک کہ اشرف غنی کی گزشتہ حکومت میں بھی ایسا ہی تھا۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین گھروں پر رہیں، جب تک امن و امان یقینی نہ ہو، طالبان کا مطالبہ

یونیسیف کا اندازہ ہے کہ تقریباً ایک تہائی افغان اساتذہ خواتین ہیں اور تورپیکئی اور جمیلہ کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ مزید خواتین تعلیم کے دیگر شعبوں میں کام کرتی ہیں۔

خواتین کے حقوق کی کارکن مسعودہ سلطان کہتی ہیں کہ

"بہت سے خاندانوں کے لیے تدریس واحد روزگار ہے جس سے ان کی خواتین وابستہ ہو سکتی ہیں۔ اسکولوں کو اس لیے جلد از جلد کھلنا چاہیے کیونکہ یہ ان خواتین کے روزگار کا بھی معاملہ ہے۔”

ملک میں گزشتہ دو سے تین مہینوں سے 1 لاکھ سے زیادہ خواتین اساتذہ کو تنخواہیں نہیں ملیں۔

2 Pings & Trackbacks

  1. Pingback: لڑکیوں کی ثانوی تعلیم کا سلسلہ جلد بحال کیا جائے گا، طالبان - دی بلائنڈ سائڈ

  2. Pingback: خواتین اب ٹی وی ڈراموں میں اداکاری نہیں کر سکتیں، طالبان کا نیا حکم - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے