مارشل آرٹس، پیپر اسپرے: برطانوی خواتین خود کو مسلح کرنے لگیں

سبینا نسا کے قتل نے برطانوی خواتین میں خوف و دہشت پھیلا دی ہے

نادیہ محمد اپنے کام میں مصروف تھیں جب انہیں 28 سالہ ٹیچر سبینا نسا کی خبر ملی کہ جنہیں جنوبی لندن کے ایک پارک میں قتل کر دیا گیا تھا۔

لندن ہی میں رہنے والی 24 سالہ ڈینٹل نرس نادیہ کہتی ہیں کہ "میں سخت صدمے اور بے یقینی کی کیفیت میں آ گئی۔ یہ میں بھی ہو سکتی تھی، ہم میں سے کوئی بھی اس کا نشانہ بن سکتا تھا۔”

"مجھے اندازہ ہوا کہ مجھے خطرے کے سامنے نہتا اور بے یار و مددگار نہیں ہونا چاہیے۔ چاہے ہمیں اندازہ نہ ہو کہ ایسی کسی صورت حال میں ہم کس طرح کا رد عمل دکھا سکتے ہیں۔ لیکن میں چاہتی ہوں کہ کچھ تیاری کروں تاکہ اپنا کچھ تو دفاع کر سکوں۔”

‏17 ستمبر کو سبینا کے قتل نے برطانوی خواتین میں خوف و دہشت پھیلا دی ہے جو سارا ایویررڈ کے قتل کے تقریباً چھ ماہ بعد ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لندن میں سبینا نسا کا قتل، خواتین کے تحفظ پر خدشات پھر ابھرنے لگے

رواں ہفتے سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ سبینا اور قاتل ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے۔ ایویررڈ کا قاتل، جو ایک پولیس افسر تھا، بھی سارا کو نہیں جانتا تھا۔ اسے جمعرات کو عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔

خواتین کے تحفظ کے حوالے سے پولیس پر عوام کا اعتماد اب انتہائی زوال کو پہنچ چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ خواتین اپنی حفاظت اپنے ہاتھ میں لے رہی ہیں۔

نادیہ کہتی ہیں کہ "میں مارشل آرٹس دوبارہ شروع کرنے کا سوچ رہی تھی لیکن سبینا کے واقعے نے مجھے جلد از جلد ایسا کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔”

البتہ وہ یہ بھی سمجھتی ہیں کہ سیلف ڈیفنس ہی اس مسئلے کا واحد حل نہیں ہے۔

"ایسا ہونا نہیں چاہیے کہ ہم ہر وقت اپنے دفاع کو ذہن میں رکھ کر زندگی گزاریں۔ ہمیں تحفظ کا احساس ملنا چاہیے۔ یہ ایک گھن چکر ہے جو مسلسل چل رہا ہے اور اسی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ الفاظ نہیں اقدامات!”

 

‏35 سالہ لیلیٰ حسین کا کہنا ہے کہ سبینا کے قتل سے ایک ہفتہ قبل ان پر حملہ کیا گیا تھا اور انہیں سخت دھچکا پہنچا جب انہیں پتہ چلا کہ سبینا بھی انہی کی طرح ایک مسلمان اور انہی کی نسل سے تھی۔ "میں نے برطانیہ میں کبھی نہیں سنا کہ کسی غیر سفید فام نسل کی مسلمان خاتون کو کسی اجنبی نے قتل کیا ہو اور میں نے کبھی نہیں سمجھا کہ میں ایک سفید فام نسل کی دبلی پتلی خاتون کی طرح اس خطرے سے دوچار ہوں۔”

یہ بھی پڑھیں: کرونا وائرس لاک ڈاؤن کے دوران برطانیہ میں 112 خواتین کا قتل

لیکن اس کے باوجود وہ خود کو مسلح کرنے یا پیپر اسپرے لینے کو تیار نہیں۔ کہتی ہیں

"اگر میں ایک ہاتھ اسپرے پر رکھ کر سڑکوں پر چلوں تو ہمہ وقت خوف میرے چہرے پر ظاہر ہوگا۔ میں اس خوف کے ساتھ سڑک پر نہیں چلنا چاہتی کیونکہ یہ ہمہ وقت مجھے یاد دلائے گا کہ میں باہر محفوظ نہیں ہوں۔”

البتہ دیگر خواتین ان کی طرح نہیں سوچتیں۔ 33 سالہ میریئن لینس نے سبینا کے قتل کے بعد ایک الارم اور ایک پیپر اسپرے خریدا ہے۔ کہتی ہیں کہ

"لاک ڈاؤن نے معاشرے کا بھیانک چہرہ آشکار کر دیا ہے،”

جس کا اظہار گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافے سے ہو رہا ہے۔

پرتگیزی نرسری ٹیچر پالیتا گاسپر سارا ایوررڈ کے قتل کے واقعے کے بعد سے اپنے ساتھ ہر وقت اسپرے رکھتی ہیں۔

اعداد و شمار اکٹھا کرنے والے اداروں کے مطابق رواں سال اب تک 109 خواتین مردوں کے ہاتھوں قتل کی جا چکی ہیں یا پھر ان کے قتل میں مرکزی ملزم مرد ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے