قطر کی خواتین ملک کے پہلے قانون ساز انتخابات میں کھڑی تو ہو رہی ہیں، لیکن ان کی تعداد مردوں سے کہیں کم ہے، جس سے یہ خدشہ ابھرتا ہے کہ خواتین سے متعلق معاملات پر ان کا اثر و رسوخ محدود ہو سکتا ہے۔
ملک میں 30 کونسل سیٹوں کے لیے 284 امیدوار میدان میں موجود ہیں، جن میں سے صرف امیدوار 28 خواتین ہیں۔ باقی ماندہ 15 نشستوں کے لیے تقرری امیرِ قطر کریں گے اور تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ممکن ہے کہ اس باڈی میں صنفی عدم توازن کو بہتر بنانے کے لیے وہ چند خواتین کو نامزد کریں۔
ایک سینئر تجزیہ کار الہام فخرو کہتی ہیں کہ خواتین کو اس عمل کا حصہ بنانا بہت مثبت قدم ہے۔ البتہ جہاں تک معاملہ ان کے اثر و رسوخ کا ہے تو ہمیں اپنی توقعات کو محدود رکھنا چاہیے کیونکہ صرف 28 خواتین ہی میدان میں موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کویت میں انتخابات، خواتین اپنی نمائندگی بڑھانے کے لیے کوشاں
ایک امیدوار لینا الدفع نے کہا کہ منتخب ہونے کی صورت میں ان کی ترجیح خواتین کی تعلیم کا فروغ، خواتین اساتذہ کی مدد اور قطری خواتین کے بچوں کو شہریت دلانے کے معاملات ہوں گے۔
قطر میں بچوں کو شہریت صرف والد سے ملتی ہے، یعنی قطری خاتون اگر کسی دوسرے ملک کے شہری سے شادی کرے تو اس کے بچے قطری شہری نہیں کہلائیں گے۔ یوں بچے قطری حکومت کی جانب سے ملنے والی تمام تر مراعات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ لینا الدفع نے کہا کہ میرے لیے سب سے اہم معاملہ قطری خواتین کے بچوں کی شہریت کا ہی ہے۔
لینا ایک تعلیمی عہدیدار ہیں، جو قطر کے 17 ویں ضلع میں دو خواتین اور سات مردوں کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ قطر کے ایجوکیشن سٹی گالف کلب میں خواتین ووٹر کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ استعداد و قابلیت صنف سے کہیں زیادہ اہم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا مصر میں کم عمری کی شادی کا قانون سخت ہو پائے گا؟
الہام فخرو نے تجویز کیا کہ امیرِ قطر "صنفی توازن کو بہتر بنانے کے لیے” براہ راست خواتین نامزد کر سکتے ہیں، بالکل ویسے جیسے بحرین کے قانون ساز انتخابات میں ہوا۔
قطر میں خواتین کی نمائندگی دیگر خلیجی پڑوسی ممالک مثلاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے زیادہ ہے، جس میں وزارتِ صحت کی قیادت ایک خاتون کے پاس ہے جبکہ وزارت خارجہ کی نمائندگی بھی ایک خاتون ترجمان کرتی ہیں۔
ورلڈ کپ 2022ء کے لیے انتظامی کمیٹی میں بھی خواتین اہم عہدوں پر موجود ہیں جبکہ خدمتِ خلق اور فنون، طب، قانون اور کاروبار کے شعبوں میں نمایاں ہیں۔
لیکن حقوقِ انسانی کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے مارچ میں قطر پر الزام لگایا تھا کہ وہ اپنے "سرپرستی” کے غیر واضح قانون کی بدولت اپنی خواتین کی زندگیوں کو محدود کر رہا ہے۔ اس قانون کی کی وجہ سے بالغ خاتون کو روزمرہ سرگرمیوں کے لیے بھی کسی قریبی مرد رشتہ دار کی منظوری کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب، خواتین کے لیے تاریخی قانون کی منظوری
قطر کا آئین "تمام شہریوں کو یکساں مواقع” فراہم کرتا ہے۔ لیکن مستحکم پیشرفت کے باوجود خواتین کو تقریباً ہر شعبہ زندگی میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔
خواتین کے سرپرست عموماً مرد رشتہ دار ہوتے ہیں اور یہ والد، بھائی، چچا، ماموں یا ان کی اولادیں ہو سکتی ہیں، لیکن خواتین اپنے بچوں کی سرپرست نہیں بن سکتیں چاہے وہ بیوہ ہی کیوں نہ ہوں۔
ملک میں تارکینِ وطن کی بڑی تعداد ہونے کی وجہ سے قطر میں ایک عورت کے مقابلے میں مردوں کی تعداد 2.6 ہے۔
قطری حکام کا کہنا ہے کہ صنفی مساوات اور صنفی اختیار ملک کی کامیابی اور وژن میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عرب امارات میں خواتین کا قومی دن
الہام فخرو کا کہنا ہے کہ انتخابات میں خواتین کی آمد ایک اہم اشارہ ہے کہ یہ ممالک خواتین کے حوالے سے آگے بڑھنے اور انہیں عوامی زندگی کا حصہ بنانے کے لیے تیار ہیں۔
گزشتہ سال درجنوں قطری خواتین نے سوشل میڈیا پر سرپرستی کے قوانین کے خلاف آواز اٹھائی تھی، خاص طور پر ملک چھوڑنے کے لیے کسی محرم کی موجودگی کے معاملے پر۔
ہیومن رائٹس واچ نے تسلیم کیا تھا کہ قطری خواتین نے کئی رکاوٹیں توڑی ہیں اور نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، جس میں متعدد خواتین گریجوٹس کا ذکر کیا گیا کہ جنہوں نے مردوں کو پیچھے چھوڑا اور یہ بھی کہ ملک میں خواتین ڈاکٹروں اور وکلا کی فی کس آمدنی مردوں سے زیادہ ہے۔
Pingback: قطر انتخابات، کسی خاتون امیدوار کو کامیابی نہیں ملی - دی بلائنڈ سائڈ
Pingback: افغان شوہر کو شہریت دلانے کے لیے پاکستانی خاتون عدالت میں - دی بلائنڈ سائڈ