خواتین کے لیے استحصال سے پاک معاشرہ بنانا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے، صدر

جب تک خواتین کو مالی خود مختاری نہیں دی جائے گی، وہ جسمانی اور ذہنی تشدد کی زد پر ہی رہیں گی

خواتین کو ہراسگی سے تحفظ دینے کے لیے وفاقی محتسب کشمالہ طارق نے انسدادِ ہراسگی اور خواتین کو ملکیت کا حق دینے کے لیے شعور اجاگر کرنے کی خاطر ایوانِ صدر میں ایک تقریب کا انعقاد کیا جس میں مہمانِ خصوصی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی تھے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خواتین (یو این ویمن) کی نمائندہ برائے پاکستان شرمیلا رسول، سینیٹر اور غربت کے خاتمے اور سماجی تحفظ کے لیے وزیر اعظم کی خصوصی مشیر ڈاکٹر ثانیہ نشتر، مختلف ممالک کے سفیر اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اس تقریب میں موجود تھے جس کا عنوان "Inclusion not Seclusion” تھا۔

افتتاحی خطاب وفاقی محتسب کشمالہ طارق نے کیا، جس میں انہوں نے اس حوالے سے اجتماعی ذمہ داری اور ہر صنف کے کردار کی اہمیت پر زور دیا۔

انہوں نے کام کرنے والی خواتین کی حالتِ زار پر بات کی، بالخصوص ان مسائل پر کہ جنہیں اب تک حل نہیں کیا گیا، مثلاً ہراسگی، غیر دوستانہ ماحول، امتیازی سلوک وغیرہ۔ انہوں نے کہا کہ "خواتین کی ملکیت کے حقوق کے ایکٹ 2020ء” کے نفاذ کے بعد دفتر وفاقی محتسب کو خواتین کی ملکیت کے حقوق کے تحفظ اور نفاذ کا اختیار مل گبا ہے۔ دفتر اپنے ملکیت کے حقوق سے محروم خواتین کو تحریک دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ اپنی شکایات کے حوالے سے دفتر آئیں۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین کا عالمی دن: 83 فیصد خواتین ہراسگی سے بچنے کے لیے اپنی نقل و حرکت محدود کرتی ہیں

شرمیلا رسول نے روزمرہ زندگی میں خواتین کو درپیش مسائل اور میڈیا کے کردار کے حوالے سے بات کی۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے ہر شعبہ زندگی میں خواتین کے یکساں حقوق کی بات کی۔

صدر عارف علوی نے تقریب سے اختتامی خطاب کیا اور کام کی جگہ پر ہراسگی اور خواتین کو ملکیت کے حقوق کے معاملات پر اپنے خیالات پیش کیے اور اس حوالے سے وفاقی محتسب کی کوششوں کو سراہا۔

انہوں نے کہا کہ

خواتین کے لیے استحصال سے پاک معاشرہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔

عارف علوی نے مزید کہا کہ خواتین کو وراثت کے حق سے محروم کرنا اسلام میں سختی سے منع ہے۔ صدر نے کہا کہ خواتین کو جب تک مالی طور پر خود مختار نہیں بنایا جائے گا وہ جسمانی اور ذہنی تشدد کی زد پر ہی رہیں گی۔

انہوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ اسلامی تعلیمات کے باوجود آج 1400 سال بعد بھی ہمارے معاشرے میں یہ مایوس کُن صورت حال موجود ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے