دو دہائیاں پہلے سلیمہ رحمٰن اٹک کے ایک اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والی چند افغان مہاجر لڑکیوں میں سے ایک تھیں۔ آج 29 سال کی عمر میں وہ اپنے اسی اسکول میں 30 مہاجر لڑکیوں کے سامنے ڈاکٹر کا سفید کوٹ پہنے کھڑی ہیں۔ پوچھتی ہیں "آپ میں سے کون کون ڈاکٹر بننا چاہتا ہے؟” اس سوال پر بہت سے ننھے ہاتھ فضا میں بلند ہوتے ہیں اور سلیمہ کے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہو جاتی ہے۔ "تو سخت محنت کریں اور کبھی ہمت نہ ہاریں۔”
یہی وہ مشورہ ہے جس پر سلیمہ نے اپنی زندگی میں عمل کیا ہے۔ بچپن ہی سے بہت لوگ انہیں "ڈاکٹر سلیمہ” کہتے تھے۔ اس نام کی وجہ دراصل پیدائش کے موقع پر ان کی والدہ کو درپیش مشکلات تھیں۔ سلیمہ کے بچنے کی کوئی امید نہیں تھی جب ان کے والد عبد الرحمٰن نے عہد کیا کہ اگر یہ بچی بچ گئی تو وہ اسے بھرپور تعلیم دلائیں گے اور ڈاکٹر بنائیں گے۔
بعد ازاں، تمام تر مخالفت اور تنقید کے باوجود انہوں نے اپنے وعدے کو سچ کر دکھایا اور بیٹی کو تعلیم میں بھرپور مدد دی۔
ڈاکٹر سلیمہ رحمٰن کہتی ہیں کہ
"شروع میں تو کبھی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ میں کلاس میں واحد لڑکی ہوتی۔ مجھے یاد ہے کہ خاندان نے کس طرح ابو کے مجھے اسکول بھیجنے کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔ مجھے وہیں احساس ہو گیا تھا کہ میرے لیے اسکول جانا کتنا اہم ہے۔ میں ایک مثال بننا چاہتی تھیں تاکہ دوسری لڑکیوں کو بھی یہ ہمت عطا کر سکوں کہ وہ بھی خواب دیکھنے اور اسے پانے کی ہمت کریں۔”
سلیمہ کا خواب رواں سال پورا ہوا، جب انہوں نے اٹک میں ایک پرائیوٹ کلینک کھول لیا جس کا مقصد مہاجرین اور ان مقامی خواتین کو صحت کی مناسب سہولیات فراہم کرنا ہے جو عموماً ان سہولیات تک رسائی نہیں رکھتیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغان مہاجر سے ڈنمارک کی فٹ بالر تک، نادیہ ندیم کی ناقابلِ یقین داستان
اس پورے سفر کے دوران سلیمہ کو محض روایات اور رواجوں ہی کے خلاف نہیں بلکہ اپنی مہاجر کی حیثیت کی وجہ سے بھی کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کہتی ہیں کہ "بچپن میں تو اندازہ نہیں تھا کہ مہاجر ہونے سے کیا ہوتا ہے لیکن پتہ چلا چلا جب میرے ساتھ پڑھنے والے دوسرے بچے تو اعلیٰ تعلیم کے لیے کالجوں میں چلے گئے لیکن مجھے مہاجر ہونے کی وجہ سے داخلہ نہیں ملا۔”
سلیمہ دو سال تک درخواست دیتی رہیں، یہاں تک کہ انہیں صوبہ پنجاب میں میڈیکل کی تعلیم کے لیے مہاجرین کے لیے مختص واحد سیٹ مل گئی۔ راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال میں ہاؤس جاب کے لیے منتخب ہونے کے بعد انہوں نے گائناکولوجی میں اسپیشلائزیشن کی۔
2020ء سلیمہ کی بطور گائناکولوجسٹ تربیت کا آخری سال تھا اور اسی سال ہولی فیملی ہسپتال کو کووِڈ-19 رسپانس ہسپتال بنا دیا گیا۔ تب انہوں نے خود کو ایک عالمی وبا کے خلاف صفِ اول میں پایا۔ اس دوران انہوں نے وائرس سے متاثرہ حاملہ خواتین کا علاج کیا۔ ان کے مریضوں میں مہاجرین اور مقامی سب شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے والی افغان مہاجر صفیہ
سلیمہ کا خواب تھا ایک پرائیوٹ کلینک کھولنا کہ جہاں وہ اپنی برادری کے غریبوں کو مفت طبّی خدمات دے سکیں اور یہاں بھی ان کا مہاجر ہونا آڑے آیا۔ 2015ء کے اوائل میں اپنی پہلی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ میڈیکل لائسنس نہیں لے پائی تھیں، لیکن ان کے عزم و حوصلے نے بالآخر ایسا کر دکھایا۔ "میں لائسنس پانے کے لیے بار بار درخواست دیتی رہی۔ جنوری 2021ء میں سالوں بعد بالآخر لائسنس مل گیا۔ یہ میری زندگی میں ایک اہم موڑ تھا۔”
رواں سال جون میں سلیمہ رحمٰن نے اٹک میں اپنا کلینک کھولا اور اب بہت سے مہاجرین جنہیں ویسے قریبی ترین ہسپتال تک پہنچنے کے لیے نہ صرف لمبا سفر کرنا پڑتا تھا بلکہ ترجمانی کے لیے کسی کو ساتھ بھی لے جانا پڑتا تھا، اب انہی کے پاس آتے ہیں۔
ایک افغان مہاجر مریضہ انیلا نے کہا کہ
"کلینک کا کھلنا ہمارے لیے خوشی کا باعث ہے۔ کئی افغان مہنگے علاج کی حیثیت نہیں رکھتے، لیکن ڈاکٹر سلیمہ ہماری مدد کر رہی ہیں۔ کتنا اچھا ہو کہ ہماری مزید لڑکیاں بھی پڑھیں اور ڈاکٹر بنیں۔”
اپنے کلینک پر سلیمہ حفظانِ صحت کے اصولوں کا شعور دینے اور کووِڈ-19 کی ویکسین کے حوالے سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو بھی ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ انہوں نے حکومتِ پاکستان کی جانب سے مہاجرین کو بھی ویکسینیشن مہم میں شامل کرنے کے فیصلے کو سراہا کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ جب تک ہر شخص وائرس سے محفوظ نہیں ہو جاتا، تب تک وائرس سے بچا نہیں جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: نگارہ شاہین، افغانستان سے اولمپکس میں مہاجرین کی ٹیم تک پہنچنے کا سفر
آج سلیمہ کی داستان ایک تبدیلی لا رہی ہے۔ ان کی برادری میں موجود لڑکیوں کی تعلیم کے بدترین مخالفین بھی اپنی بیویوں، بہنوں اور بیٹیوں کی صحت کے حوالے سے مشورہ لینے کے لیے سلیمہ ہی سے رابطہ کرتے ہیں۔ کئی تو اب اپنی بیٹیوں کو اسکول بھی بھیجنا شروع ہو گئے ہیں کہ ممکن ہے وہ بھی سلیمہ کے نقشِ قدم پر چل پڑیں۔
پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) کے نمائندے نوریکو یوشیدا نے کہا کہ
"سلیمہ تمام تر مشکلات کو سامنا کرنے کے باوجود افغان مہاجر برادری کی پہلی ڈاکٹر بنیں۔ اپنے خواب کی تعبیر پانے کے ساتھ ساتھ وہ معاشرے کے سب سے پسماندہ طبقے یعنی مہاجرین اور انہی جیسے مالی حالات رکھنے والے مقامی پاکستانیوں کو بھی صحت کی سہولیات فراہم کر رہی ہیں۔ وہ ایک زندہ ثبوت ہیں کہ عورت اپنی برادری کی سماجی و معاشی نمو کے لیے کیا کچھ کر سکتی ہے۔”
اپنی شاندار خدمات کی بدولت سلیمہ رحمٰن کو UNHCR کے نانسن ریفیوجی ایوارڈ کا علاقائی فاتح قرار دیا گیا ہے۔ یہ مؤقر علاقائی انعام انہیں دیا جاتا ہے جو بے گھر یا بے ریاست افراد کی مدد کے لیے غیر معمولی خدمات انجام دیتے ہیں۔
سلیمہ کہتی ہیں کہ میں یہ ثابت کرنا چاہتی ہوں کہ اگر لڑکیوں کو موقع دیا جائے تو وہ سب کچھ کر سکتی ہیں۔ میں چاہے پاکستان میں ہوں یا کہیں اور، بس پوری تندہی سے انسانیت کی خدمات کرنا چاہتی ہوں۔”
جواب دیں