عالمی ادارۂ صحت کے تقریباً دو درجن ملازمین نے عوامی جمہوریہ کانگو میں ایبولا کی وبا پھوٹ پڑنے کے بعد کام کے دوران 50 خواتین کا جنسی استحصال کیا، جس کا انکشاف ایک آزاد کمیشن نے کیا ہے۔
کمیشن کی جاری کردہ 35 صفحات کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2018ء سے 2020ء کے دوران 83 امدادی کارکنوں کے خلاف جنسی استحصال کے الزامات لگائے گئے، جن میں سے 21 عالمی ادارۂ صحت کے ملازمین تھے۔
ریپ کا نشانہ بننے والی یا جبراً جنسی فعل پر مجبور کی جانے والی 50 میں سے 29 خواتین حاملہ ہوئیں بلکہ ان ملازمین کی جانب چند کا زبردستی اسقاط بھی کروایا گیا۔
تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن اور نیو ہیومینیٹیرین کی تحقیقات نے بتایا کہ عالمی ادارے کے ملازمین نے خواتین کو اپنی ملازمت برقرار رکھنے یا نوکری دلانے کے جھانسے دے کر اس قبیح فعل پر مجبور کیا۔
یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کی امن فوج پر جنسی استحصال کے الزامات، 450 اہلکار وطن واپس بھیج دیے گئے
ایک 44 سالہ خاتون نے بتایا کہ عالمی ادارۂ صحت کے ایک ملازم نے انہیں کہا کہ انہیں نوکری حاصل کرنے کے لیے جنسی فعل کرنا پڑے گا۔
چند خواتین کا کہنا ہے کہ ادارے میں افسرانِ بالا کی جانب سے انہیں بارہا یہ ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا۔
بی بی سی نے بتایا ہے کہ اسی دوران کئی مقامی خواتین کا جنسی استحصال بھی کیا گیا، جن میں سے دو حاملہ بھی ہوئیں۔
ابھی تک اس گھناؤنے فعل کے مرتکب تمام افراد کی شناخت نہیں ہوئی، لیکن جن کا پتہ چل چکا ہے انہیں عالمی ادارۂ صحت کی ملازمت سے نکال دیا گیا ہے۔
تحقیقات اس وقت جاری ہیں لیکن ابھی معلوم نہیں کہ ملزمان کو عدالت میں گھسیٹا جائے گا یا نہیں۔ البتہ عالمی ادارے کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا ہے کہ ملزمان کے معاملات کانگو اور ان کے متعلقہ ممالک کے حوالے کیے جائیں گے۔ ابھی واضح نہیں کہ دیگر کون سے امدادی اداروں کو ایسے ہی الزامات کا سامنا ہے۔
انہوں نے نشانہ بننے والی خواتین سے معافی بھی مانگی اور یقینی دلایا کہ وہ اپنے نظام میں بھرپور اصلاحات لائیں گے اور جو کچھ ان کے ساتھ ہوا ہے، وہ کسی کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے۔ "میری اولین ترجیح یہ یقینی بنانا ہے کہ ملزمان کو معافی نہ ملے بلکہ انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔”
جواب دیں