جب علی (فرضی نام) نے اپنی سب سے اچھی دوست کو شادی کی پیشکش کی تو اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ صرف لڑکی کے والدین کو منانے میں چھ سال لگ جائیں گے کیونکہ وہ مسلمان ہے لیکن لڑکی کے گھر والے ہندو۔ ایک انٹرویو میں اس نے کہا کہ
"انہوں تو زندگی بھر مسلمانوں کے بارے میں یہی سن رکھا تھا کہ وہ تشدد پسند، قدامت پسند اور زور زبردستی کرنے والے ہوتے ہیں۔ میرے تمام تر احترام کے باوجود ان کے لیے یہ بات ناقابلِ برداشت تھی کہ ان کی ہندو بیٹی کسی مسلمان سے شادی کرے۔”
یہ ان چند واقعات میں سے ایک ہے کہ جس کے اختتام پر سب ہنسی خوشی رہنے لگے، لیکن بھارت میں بڑھتا ہوا اسلاموفوبیا اور پروپیگنڈا دیکھیں تو جس ایک فرضی تصور نے مسلمانوں کے خوب آگ بھڑکائی ہے، وہ ‘لو جہاد’ کا ہے۔
یہ انتہا پسند ہندو گروہوں کی تخلیق کی گئی اور پھیلائی گئی اصطلاح ہے، جس کے مطابق مسلمان مرد ہندو عورتوں کو محض مسلمان کرنے کی خاطر انہیں محبت کے جال میں پھنساتے ہیں۔
یہی پروپیگنڈا تھا کہ جس کی وجہ سے علی کو اپنے سسرال کو قائل کرنے میں اتنے سال لگ گئے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کی ایک اور ریاست ‘لو جہاد’ کے خلاف قانون لائے گی
’لو جہاد’ کی اصطلاح کو مشہور کرنے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت عام کرنے میں دائیں بازو کی ہندو سیاسی جماعتوں کا بھرپور کردار ہے اور یہ ان کی کامیابی ہے کہ کئی ریاستوں میں ایسی شادیوں کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے یا ایسی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں جس سے بین المذہب شادی ممکن ہی نہیں رہے۔
بنگلور سے تعلق رکھنے والی دانشور اور انسانی حقوق کی کارکن آشوینی کے پی کہتی ہیں کہ
"فیس بک اور ٹوئٹر جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایسے کئی پیجز اور ہینڈلز ہیں جو ایسے غیر مصدقہ واقعات سے بھرے پڑے ہیں کہ کسی مسلمان نے ہندو خاتون کو بہلا پھسلا کر شادی کی اور پھر جبراً مذہب تبدیل کرنے سے انکار پر اسے مار پیٹ کا نشانہ بنایا اور مار دیا یا گھر میں قید کر دیا۔”
ریاست گجرات میں ایسے ہی ظالمانہ قوانین کو چیلنج کرنے والے عیسیٰ حکیم ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ گجرات کا آزادئ مذہب (ترمیمی) قانون 2021ء دراصل ‘لو جہاد’ کے گرد ہی گھومتا ہے۔ اس سے واضح ہو چکا ہے کہ اسے محض اس لیے قانون بنایا گیا تاکہ مذہبی بنیادوں پر لوگوں کو تقسیم کیا جائے اور یہی وجہ ہے کہ یہ بھارت کے آئین کی مختلف دفعات میں موجود بنیادی اخلاقیات، خصوصیات اور حقوق کے خلاف ہے۔
رواں سال 19 اگست کو گجرات ہائی کورٹ نے اس قانون کی مختلف دفعات پر عمل درآمد روک دیا، جس میں سے ایک قانون یہ بھی ہے جو مختلف مذہب کے افراد کے درمیان شادی کو مذہب کی جبراً تبدیلی قرار دیتا ہے۔ عدالت نے یہ حکم مختلف مذہب سے تعلق رکھنے والے شادی شدہ افراد کو غیر ضروری طور پر ہراساں کیے جانے سے بچانے کے لیے دیا اور اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ریاستی حکومت اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یکساں سوِل کوڈ کے لیے ہندوتوا ماڈل؟ حالات مزید گمبھیر ہو جائیں گے
بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، جن کا تعلق دائیں بازو کی انتہا پسند ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے، نے گزشتہ ایک جلسے کے دوران علانیہ کہا تھا کہ حکومت ‘لو جہاد’ کے خاتمے کے لیے کام کرے گی۔ "ہم قانون بنائیں گے۔ میں ان سب کو خبردار کرتا ہوں جو اپنی شناخت چھپا رہے ہیں اور ہماری بہنوں کی عزتوں سے کھیل رہے ہیں کہ اگر تم باز نہ آئے تو تمہارا ‘رام رام ستیہ’ شروع ہو جائے گا۔” اس کا مطلب ہے خاتمہ کر دیا جائے گا۔
جب اتنی بڑی ریاست کا وزیر اعلیٰ ہی کھلے عام دھمکیاں دے تو کارکن تو ‘لو جہاد’ کے مفروضے کو مذہبی کشیدگی پھیلانے اور دنگا فساد پھیلانے کے لیے استعمال کریں گے ہی۔ بھارت میں کُل پانچ ریاستیں ایسی ہیں جہاں ‘لو جہاد’ جیسے سازشی نظریے کی بنیاد پر قانون بنائیں گئے ہیں اور ان تمام ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے۔
ریسرچ اسکالر اور صحافی شیبا اسلم فہمی کہتی ہیں کہ
"ایسی باتیں 21 ویں صدی کی ہندو عورت کی خود مختاری پر بھی سوال اٹھاتی ہیں۔ ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں اور جو آج بھی اپنی بیٹیوں کے حوالے سے پریشان رہتا ہے اور ان کو اپنے فیصلے خود کرنے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ موجودہ حکومت بھی اسلام سے خوفزدہ ہے اور ‘اپنی’ خواتین کے تحفظ کے نام پر مذہبی بنیادوں پر قانون سازی کر رہی ہے۔”
شیبا فہمی مرضی کی شادی کرنے والے افراد کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے ‘دھنک’ کی سربراہ ہیں۔ یہ ادارہ مختلف مذہب اور ذات سے تعلق رکھنے والے افراد کی باہمی شادیوں کی حمایت کرتا ہے۔ کہتی ہیں کہ وہ مختلف مذہب رکھنے والے جوڑوں کو محفوظ مقام فراہم کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں تاکہ وہ دائیں بازو کے شدت پسندوں کے ہدف کا نشانہ نہ بنیں۔
یہ بھی پڑھیں: کشمیر کی بین المذاہب شادی نے سیاسی دراڑیں نمایاں کر دیں
سب سے پریشان کن امر یہ ہے کہ مذہب تبدیل کیے بغیر شادی کی اجازت دینے والے قانون ‘اسپیشل میرجز ایکٹ’ کے تحت شادی کرنے کے خواہش مند کے لیے سب سے بڑا مسئلہ وہ شق ہے جس کے تحت جوڑے کو شادی سے 30 دن پہلے عوامی نوٹس جاری کرنا ضروری ہے، جس پر اعتراضات طلب کیے جائیں۔
شیتل (فرضی نام) بتاتی ہیں جب انہوں نے اس ایکٹ کے تحت ایک مسلمان سے شادی کے لیے نام رجسٹر کروایا تو دائیں بازو کے گروہوں کی جانب سے کس طرح دھمکی آمیز کالز کا سامنا کیا۔
"میرے شناختی کارڈ کی تفصیلات فیس بک گروپس میں عام کی گئیں۔ میرے والدین جو اس شادی پر راضی تھے، کو کالز کی گئیں اور شادی نہ روکنے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔” ان دھمکیوں کی وجہ سے شیتل نے شادی نہیں کی۔
اصف اقبال ‘دھنک’ کے شریک بانی ہیں، کہتے ہیں کہ اس ادارے کے قیام کی ایک وجہ مختلف مذہب سے تعلق رکھنے والے جوڑوں کی مدد کرنا اور یوں انہیں مذہبی شدت پسندی کے خلاف منظم کرنا بھی ہے۔ بتاتے ہیں کہ
"مجھے دہلی کے ایک تھانے میں چھ گھنٹے تک بٹھایا گیا، کیونکہ تفتیشی افسر ایک ایسے معاملے میں ‘سازش’ تلاش کر رہا تھا کہ جس میں ایک جوڑے نے گھر سے بھاگنے سے پہلے آخری بات مجھ سے کی تھی۔ اس میں لڑکا مسلمان تھا اور لڑکی ہندو۔”
آن لائن اور حقیقی دنیا میں بھی انتہا پسند مذہبی گروہ اتنے طاقتور ہو گئے ہیں کہ بین المذہب شادی جیسے کسی تصور کو پیش کرنے والے برانڈز کو بھی ‘لو جہاد’ پھیلانے والے قرار دیا گیا، خاص طور پر جب اس میں لڑکے کو مسلمان دکھایا جائے۔ حالیہ مثال ایک معروف جیولری برانڈ کی ہے جس نے اپنے اشتہار میں ایک ہندو خاتون اور مسلمان مرد کی شادی دکھائی۔ اشتہار کو سوشل میڈیا پر بُری طرح تنقید کا نشانہ بنایا گیا، یہاں تک کہ کمپنی نے ہر جگہ سے یہ اشتہار ہٹا دیا۔
ان ظالمانہ قوانین کے خلاف جوڑوں کی واحد امید عدالتیں ہیں۔ پریشان کن امر یہ ہے کہ ‘لو جہاد’ پروپیگنڈے کا ہدف مسلمان ہیں جو انہیں ایک مجرم بنا کر پیش کرتا ہے اور اسلاموفوبیا عام ہوتا جا رہا ہے۔
جواب دیں