سال 2030ء کے لیے طے شدہ پائدار ترقیاتی اہداف (SDGs) میں سے 17 ایسے ہیں جو کسی نہ کسی طرح زراعت کے شعبے سے ملتے ہیں – چاہے وہ بھوک اور غربت کے خاتمے کے حوالے سے ہوں یا موسمیاتی تبدیلی، صنفی مساوات، صحت، صاف پانی اور ذمہ دارانہ پیداوار کے لیے، لیکن بد قسمتی سے پاکستان تمام تر صلاحیتوں کے باوجود ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے درست راستے پر گامزن نظر نہیں آتا۔
لیکن اس حوالے سے تمام تر کوتاہیوں کے باوجود کاشت کار عامر حیات بھنڈارا دیہی علاقوں میں مقیم ملک کی 70 فیصد آبادی میں نوجوانوں کو روشنی کی کرن سمجھتے ہیں، جن میں سے بیشتر بلاواسطہ یا بالواسطہ کاشت کاری سے وابستہ ہیں۔ کہتے ہیں کہ "پچھلی نسل کے مقابلے میں ان نوجوانوں کو پائدار زرعی ماڈل کے بارے میں سمجھانا اور قائل کرنا آسان ہے۔” انہوں نے 10 بلین ٹری سونامی پر نوجوانوں کے زبردست ردِ عمل کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوان مستقبل کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "ایک 60 سال سے زیادہ عمر رکھنے والے کاشت کار کو مٹی کے تجزیے کے لیے جدید طریقوں پر قائل کرنا مشکل ہے بلکہ وہ تو ماضی کے ‘ماضی’ کے آزمودہ طریقوں پر ہی مصر ہوگا البتہ نوجوان نسل جدت کی راہ میں آڑے نہیں آتی۔”
عامر حیات زور دیتے ہیں کہ نجی شعبہ اس حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے اور اس میں ان اہداف کے حصول کی بھرپور صلاحیت ہے۔ "سرکاری شعبے کے مقابلے میں کہ جو وسائل اور افرادی قوت دونوں کے لحاظ سے پیچھے ہے، نجی شعبہ درکار وسائل بھی رکھتا ہے اور اس میں آگے بڑھنے کی خواہش بھی پائی جاتی ہے۔ ضرورت ہے ایک مؤثر انضباطی ڈھانچے (ریگولیٹری فریم ورک) کی۔ اگر حکومت طویل المیعاد پالیسیوں اور قوانین کے ذریعے تعاون کرے تو کئی معجزات رونما ہو سکتے ہیں۔”
یہ بھی پڑھیں: خواتین کاشت کار سیاست دان ہوں تو خوراک کے عالمی مسائل حل ہو جائیں
انہوں نے زور دیا کہ ایک پائدار زرعی ماڈل کی تیاری کے لیے نجی شعبہ پبلک-پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت تحقیق کر سکتا ہے اور اس عمل کو دیگر شعبوں میں بھی دہرایا جا سکتا ہے۔
ایک پبلک پالیسی اسکالر اسما محسن زراعت کے شعبے میں صنفی مساوات پر توجہ دینے کی تائید کرتی ہیں تاکہ پائدار ترقیاتی اہداف با آسانی اور فوراً حاصل کیے جا سکیں۔ وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ پاکستان میں 65 فیصد خواتین کم یا بغیر کسی ادائیگی کے کاشت کاری سے وابستہ ہیں اور اگر انہیں فیصلہ سازی اور وسائل تک رسائی میں شامل کیا جائے، مثلاً قرضوں کی فراہمی، زمین کی ملکیت دینے اور دیگر خدمات تک رسائی کے ذریعے، تو بنا کسی بڑی سرمایہ کاری کے فی گھرانہ زرعی پیداوار کو 30 فیصد تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کیونکہ خواتین اپنی آمدنی کا 80 سے 90 فیصد گھریلو ضروریات پر ہی خرچ کرتی ہیں مثلاً خوراک، غذائیت، تعلیم اور صحت وغیرہ پر، اس لیے ان کی آمدنی میں اضافے کا مطلب 2030ء کے اہداف کا حصول ہوگا۔
اسما محسن نے خواتین کاشت کاروں کے حوالے سے صنفی بنیاد پر علیحدہ ڈیٹا تیار کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ زرعی پالیسیوں اور عوامل میں ان کو مدد فراہم کی جا سکے اور ساتھ ہی خواتین کے خلاف سماجی، معاشی، ماحولیاتی اور ادارہ جاتی تعصب کا خاتمہ کیا جا سکے تاکہ وہ اس شعبے میں اپنی بھرپور صلاحیتوں کے ساتھ کام کر سکیں اور یوں پائیدار ترقیاتی اہداف کا حصول آسان ہو۔
جواب دیں