جرمنی میں حجاب پر پابندی اور مسلمان خواتین کی جدوجہد

مبہم قانون حجاب کرنے والی خواتین کے کیریئر میں رکاوٹ ڈال رہا ہے

جب 24 سالہ شیلان احمد جرمنی کے ایک اسکول میں ٹیچر کی ملازمت حاصل کرنے کے لیے انٹرویو دینے پہنچیں تو انہیں پہنچتے ہی منع کر دیا گیا۔

انہوں نے اپنی سی وی اور تصویر کے ساتھ ملازمت کے لیے درخواست جمع کروائی تھیں۔ جب انہیں بذریعہ فون منظوری دی گئی تو وہ بہت خوش ہوئی تھیں۔ لیکن جیسے ہی دسمبر میں وہ ملاقات کے لیے ادارے پہنچیں، ڈائریکٹر نے ان پر ایک نظر ڈالی اور میٹنگ کا انتظام کرنے والی اپنی ساتھی کارکن کی طرف رخ کر کے کہا کہ "آپ نے اس عورت کو مجھ سے بات کرنے کی اجازت کیسے دی؟”

ایسا اس لیے کیونکہ شیلان کا بنیادی تعلق شام سے ہے اور وہ حجاب کرتی ہیں۔ انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ ان کا حجاب پہننا اتنا بڑا مسئلہ پیدا کر سکتا ہے کیونکہ انہوں نے جو تصویر سی وی کے ساتھ دی تھی، اس میں بھی وہ باحجاب تھیں۔ بتاتی ہیں کہ "جب میں گھر آئی تو سخت غم و غصے میں تھی اور والدہ کو کہہ دیا کہ اب میں حجاب نہیں کروں گی۔”

درحقیقت، شیلان کو جس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے، وہ غیر قانونی ہے۔ جرمن آئین کے تحت کام کرنے والوں کو مذہبی بنیادوں پر امتیاز سے تحفظ حاصل ہے اور انہیں تمام شعبوں میں یکساں بنیادوں پر مواقع ملنے چاہئیں۔ لیکن جرمنی میں امتیازی سلوک کا یہ معاملہ ذرا پیچیدہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ویسے میرا جسم میری مرضی، لیکن حجاب پر مرضی نہیں چلے گی، آخر ایسا کیوں؟

جولائی میں یورپی عدالتِ انصاف نے 2017ء کے اس فیصلے کو قائم تو رکھا کہ جس کے مطابق مالکان کو کام کی جگہ پر مذہبی لباس پر پابندی لگانے کے لیے غیر جانبدارانہ پالیسیاں اختیار کرنے کو کہا گیا، لیکن اس فیصلے کی چند شرائط تھیں۔ اب مالکان کو ثابت کرنا ہے کہ ان کی اختیار کردہ غیر جانبدارانہ پالیسیاں کاروبار کے لیے ضرور ہیں۔

‏2017ء کے فیصلے سے پہلے سوائے سیفٹی کے کسی بھی وجہ سے مذہبی علامات پر پابندی لگانے کی اجازت نہیں تھی۔

یہ معاملہ عدالت میں دو جرمن مسلمان خواتین لائیں کہ جن میں سے ایک ٹیچر تھیں اور دوسری ایک ادارے میں کیشیئر۔ ان دونوں کو اپنے مالکان نے حجاب پہننے سے منع کیا تھا۔ ٹیچر دو سال سے اس سینٹر میں کام کر رہی تھیں، یہاں تک کہ 2016ء کے اوائل میں انہوں نے حجاب لینے کا فیصلہ کیا۔ وہ وسط اکتوبر تک حجاب کے ساتھ ہی کام پر آتی رہیں، پھر وہ اپنے بچے کی پیدائش کی وجہ سے 2018ء تک تعطیلات پر چلی گئیں۔ لیکن ان کی کام پر واپسی سے دو مہینے پہلے سینٹر نے اپنے ملازمین کے لیے نئی غیر جانبدارانہ پالیسی اپنا لی، جس کے تحت وہ کوئی سیاسی، فلسفیانہ یا مذہبی عقائد کا اظہار کرنے والی علامت نہیں پہن سکتے جو بچوں، ان کے والدین اور کام پر موجود دیگر افراد کے سامنے ظاہر ہو۔ جب وہ واپس کام پر پہنچیں تو حجاب لینا جاری رکھا اور اتارنے سے انکار پر انہیں ملازمت سے نکال دیا گیا۔

دوسرا معاملہ بھی ایسا ہی تھا، یہ کیشیئر خاتون ایک جرمن دوا خانے میں ملازمہ تھیں، جنہوں نے حجاب اتارنے سے انکار کیا تو انہیں بھی گھر بھیج دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: مسلمان خواتین کو حجاب پہننے پر ملازمت سے نکالا جا سکتا ہے، یورپی عدالت کا فیصلہ

عدالت نے باحجاب ملازمین کے خلاف ان فیصلوں کو قابلِ قبول قرار دیا کیونکہ یہاں غیر جانبدارانہ پالیسی کو "عمومی اور غیر امتیازی انداز” میں نافذ کیا گیا تھا اور اسے براہِ راست امتیاز نہیں سمجھا گیا۔

عدالت نے مزید کہا کہ ایسی پالیسیاں صرف اسی صورت میں لاگو ہو سکتی ہیں اگر مالک کی جانب سے اس کی حقیقی ضرورت ثابت کی جائے۔

ہیمبرگ میں شہری حقوق کی وکیل توگبا آئینک کے مطابق یورپی عدالت انصاف کے فیصلے کے بہت منفی اثرات مرتب ہوئے کیونکہ اب گویا کام کی جگہ پر حجاب پر پابندی کو قانونی حیثیت مل گئی ہے۔ یہ قانون الجھا ہوا اور غیر ضروری ہے۔

گو کہ دارالحکومت برلن میں اساتذہ کو حجاب پہننے سے روکنے کا قانون گزشتہ سال غیر آئینی قرار دیا گیا تھا، لیکن ابھی بھی واضح نہیں کہ یہ فیصلہ کب لاگو ہوگا۔ جرمنی کے سرکاری اسکولوں کے تمام اساتذہ کو 2015ء تک حجاب پہننے پر پابندی کا سامنا تھا، جب وفاقی قانون نے اس کا خاتمہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: فرانس، حجاب پہننے پر امیدوار سے پارٹی ٹکٹ واپس لے لیا گیا

شیلان جیسی ملازمت یا انٹرن شپ کی خواہش مند خواتین کے لیے قانون کا مبہم ہونا بہت پریشان کن ہے۔ مثلاً 28 سالہ شامی سبا بیری نے کئی مہینے ایک فارمیسی میں انٹرن شپ حاصل کرنے کی کوشش کی جو اپنا فارمیسی ٹیکنیشن پروگرام مکمل کرنے کے لیے ضروری تھی۔ لیکن درجنوں مقامات پر سی وی بھیجنے، متعدد فارمیسیز میں کال کرنے اور انٹرویوز دینے کے باوجود انہیں کچھ نہیں ملا۔ وہ کہتی ہیں "میرا سوال ہے ہمارے تمام جرمن ساتھیوں کو ملازمت کیسے مل گئی؟ صرف میں اور میری ایک باحجاب شامی ساتھی کو ہی ملازمت نہیں ملی۔”

اب اتوار کو ہونے والے انتخابات سے پہلے بیشتر جرمن سیاست دانوں کے لیے غیر جانبدارانہ پالیسی کا یہ قانون غیر اہم ہے اور یہ ان کا ایجنڈوں کا حصہ بھی نہیں ہے۔ واحد پارٹی جس نے حجاب کا ذکر کیا ہے وہ ملک کی لیفٹ پارٹی ہے، جو کام کی جگہ پر ایسی پابندیوں کے خلاف ہے جبکہ انتہائی دائیں بازو کی آلٹرنیٹو فار جرمنی پارٹی ملک میں فرانس کی طرح اسکولوں اور سرکاری ملازمتوں میں حجاب کے خلاف ہے۔

بہرحال، شیلان نے اپنا حجاب جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس واقع نے انہیں حجاب کی بڑے پیمانے پر قبولیت کی جدوجہد شروع کرنے کا عزم دیا ہے۔ مسترد ہونے کے بعد انہوں نے ایک آن لائن میگزین میں حجاب کے حق میں تحریر لکھی اور جرمنی کی گرین پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ اب وہ خواتین کے حقوق کی کارکن یا صحافی بننا چاہتی ہیں۔

کہتی ہیں کہ حجاب کو ذاتی پسند سمجھنا چاہیے۔ اگر ان کا رابطہ کسی ایسی خاتون سے ہوتا ہے کہ جو کسی ظالم حکومت، خاندان یا ساتھی کے چنگل سے فرار ہو رہی ہیں کہ جو اس سے زبردستی حجاب کرواتا ہے تو وہ اس کے حجاب ترک کرنے کی حمایت کریں گی کیونکہ فیصلہ اس کی مرضی سے ہونا چاہیے۔

 

2 Pings & Trackbacks

  1. Pingback: حجابی لڑکی کو شامل کرنے پر انسانی حقوق کے ادارے کی وڈیو ہٹا دی گئی - دی بلائنڈ سائڈ

  2. Pingback: کینیڈا، حجاب پہننے پر خاتون ملازمت سے محروم - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے