بھارت میں خواتین کے حقوق کی اہم کارکن، مصنفہ اور شاعرہ کملا بھاسن چل بسیں۔
ان کی عمر 75 سال تھی اور وہ سرطان جیسے موذی مرض میں مبتلا تھیں۔ انہیں جمعے کو ہسپتال داخل کروایا گیا تھا لیکن وہ ہفتے کو علی الصبح وفات پا گئیں۔
کملا نے خواتین کے حقوق کے لیے کام کا آغاز 1970ء میں شروع کیا تھا اور ان کے بنیادی موضوع صنف، تعلیم، انسانی ترقی اور ذرائع ابلاغ تھے۔ ان کو ‘ون بلین رائزنگ’ مہم کی وجہ سے ملک گیر شہرت ملی اور وہ کچھ ہی عرصے میں بھارت میں حقوقِ نسواں کے لیے توانا آواز بن گئیں۔
کملا 24 اپریل 1946ء کو منڈی بہا الدین میں پیدا ہوئی تھیں، جو اب پاکستان میں ہے۔ بعد ازاں انہوں نے راجستھان یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اور پھر مغربی جرمنی میں سماجیات کی تعلیم حاصل کی۔
1976ء سے 2001ء تک انہوں نے اقوام متحدہ کے ادارۂ خوراک و زراعت میں ملازمت کی۔ اس دوران انہوں نے کئی پڑوسی ممالک کے دورے کیے۔ 1984ء میں وہ پاکستان کے دورے پر آئیں، جب یہاں جنرل ضیا الحق کی حکومت تھی اور ملک میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے زبردست جدوجہد چل رہی تھی۔ ان کے پاکستان میں ہم خیال افراد کے ساتھ بہت قریبی تعلقات رہے اور وہ کئی بار پاکستان آئیں۔
2002ء میں اقوام متحدہ کی ملازمت سے استعفیٰ دینے کے بعد انہوں نے ایک این جی او ‘سنگت’ میں شمولیت اختیار کر لی۔ یہ ادارہ دیہی اور قبائلی علاقوں کی پسماندہ خواتین کے ساتھ کام کرتا تھا۔
بھاسن نے تحریکِ نسواں، پدر شاہی (patriarchy) اور صنف کو سمجھنے کے حوالے سے متعدد کتب لکھیں جو 30 زبانوں میں ترجمہ ہوئیں۔
ان کی معرف کتب میں Laughing Matters، Exploring Masculinity، Borders & Boundaries، Women in India’s Partition، What Is Patriarchy? اور Feminism and its Relevance in South Asia ہیں۔
انسانی حقوق کی معروف کارکن کویتا شری واستو نے کملا کی وفات کو بھارت اور جنوبی ایشیا میں حقوقِ نسواں کی تحریک کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔ جبکہ بالی ووڈ اداکارہ شبانہ اعظمی نے کہا ہے کہ کملا کے خلا کو بہت عرصے تک محسوس کیا جائے گا۔
کملا کے ساتھ ہی خواتین کے یکساں حقوق دینے کی 40 سالہ جدوجہد اپنے اختتام کو پہنچی۔
جواب دیں