لندن میں ایک 28 سالہ ٹیچر کے قتل نے ملک میں خواتین کے تحفظ کے حوالے سے ایک قومی بحث کو جنم دے دیا ہے۔ یہ واقعہ سارا ایویررڈ کے قتل کے چھ ماہ بعد پیش آیا ہے، جو ایک پولیس افسر کے ہاتھوں ماری گئی تھیں اور معاملہ سیاسی ایجنڈے پر سر فہرست آ گیا تھا۔
سبینا نسا نامی خاتون ایک پرائمری اسکول ٹیچر تھیں جنہیں 17 ستمبر کو جنوب مشرقی لندن میں واقع ایک پارک میں قتل کیا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے گھر سے 10 منٹ کے فاصلے پر واقع ایک جگہ پر کسی دوست سے ملنے جا رہی تھیں کہ جب پولیس کے مطابق رات ساڑھے 8 بجے ان پر حملہ کیا گیا۔ پیر کو ان کی لاش کا پوسٹ مارٹم بھی ہوا لیکن یہ فیصلہ کن ثابت نہیں ہوا۔ جمعرات کو پولیس نے قتل کے شبے میں ایک 38 سالہ شخص کو گرفتار کیا ہے اور اب بھی تحویل میں ہے جبکہ عوام سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس واقعے کے عینی شاہد اور اس حوالے سے کوئی معلومات رکھنے والے افراد پولیس سے رابطہ کریں۔
معاملے کی تحقیقات کرنے والے انسپکٹر جو گیرٹی کہتے ہیں "مقامی آبادی کی طرح ہمیں بھی اس قتل پر سخت صدمہ ہے اور ہم اس جرم کے مرتکب فرد کا پتہ چلانے کے لیے ہر ممکن وسائل استعمال کریں گے۔”
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ، ریپ کی شکار صرف 16 فیصد خواتین پولیس کو رپورٹ کرتی ہیں
اس دوران بڑے پیمانے پر مطالبات بھی کیے جا رہے ہیں کہ برطانیہ میں خواتین پر تشدد کی اٹھنے والی لہر کے خلاف اقدامات اٹھائے جائیں۔ عوامی مقامات پر خواتین کے تحفظ کے لیے موبائل ایپ ‘واک سیف’ کی بانی ایما کے کا کہنا ہے کہ مارچ میں ایوررڈ کے قتل کے بعد سے اب تک برطانیہ میں کئی خواتین مردوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارا جا چکی ہیں۔
ایویررڈ 33 سال کی تھیں اور انہیں قتل کرنے والے 48 سالہ وین کزنز نے اقرارِ جرم بھی کر لیا ہے اور 29 ستمبر کو انہیں سزا سنائی جائے گی۔
ملک میں خواتین کے قتل کے واقعات کا ریکارڈ مرتب کرنے والے ادارے ‘کاؤنٹنگ ڈیڈ ویمن’ کے مطابق رواں سال اب تک برطانیہ میں 108 خواتین مردوں کے ہاتھوں ماری جا چکی ہیں۔ ان میں وہ واقعات بھی شامل ہیں کہ جن میں شبہ ہے کہ مشتبہ مجرم مرد ہے۔
ایما کے کہتی ہیں
"بس اب بہت ہو گیا۔ برطانوی خواتین اب عملی اقدامات کا مطالبہ کرتی ہیں۔ ہمیں اپنے گھر تک حفاظت کے ساتھ پہنچنے اور اپنے گھروں کے اندر بغیر تشدد کی زندگی گزارنے کا موقع ملنا چاہیے۔”
انہوں نے کہا کہ پولیس اور عدالتی نظام کو عورتوں کو تحفظ عطا کرے اور ساتھ ہی مضبوط حفاظتی اقدامات بھی اٹھائے جائیں مثلاً بہتر سی سی ٹی وی نظام اور خواتین کے لیے مفت یا سستا ٹرانسپورٹ سسٹم۔
لندن کے میئر صادق خان اور اِس حلقے سے رکن پارلیمان جینٹ ڈیبی نے بھی فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کرونا وائرس لاک ڈاؤن کے دوران برطانیہ میں 112 خواتین کا قتل
صادق خان نے ‘زن بیزاری’ (misogynism) کو برطانوی قانون میں نفرت انگیز جرم قرار دینے اور عوامی مقامات پر خواتین کو ہراساں کرنے کو جرم شمار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈیبی نے پارلیمان میں کہا کہ نسا کی زندگی "زن بیزارانہ تشدد” کے ہاتھوں گئی۔
"آخر حکومت کے سنجیدہ اقدامات سے پہلے کتنی جانیں جائیں گی؟”
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ جولائی میں متعارف کروائے گئے قانون سے خواتین پر تشدد کے خاتمے کی کوشش کر رہی ہے لیکن حقوقِ نسواں کی کارکنان کا کہنا ہے کہ ایسی کوششیں لاحاصل ہیں اور نسا کا قتل اس کی گواہی دے رہا ہے۔
سیاسی کارکن اور صنفی مساوات کے ادارے یو این ویمن برطانیہ کے لیے مشیر جینا مارٹن نے کہا کہ ہمارا حل رد عمل پر مبنی ہے۔ ہم اس حوالے سے بات کرنے کو تیار نہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خواتین مردوں کے تشدد سے محفوظ نہیں ہیں۔
Pingback: نیڈل اسپائکنگ، برطانیہ میں خواتین کے لیے ایک نیا خطرہ - دی بلائنڈ سائڈ