پاکستان کی عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) نے فیصلہ دیا ہے کہ خواتین صرف اپنی زندگی میں ہی وراثت کا دعویٰ کر سکتا ہے اور انتقال کے بعد ان کے بچے دعویٰ دائر نہیں کر سکتے۔
یہ معاملہ دراصل پشاور کی دو خواتین کا تھا کہ جن کے والد نے 1935ء میں اپنی جائیداد بیٹے کے نام منتقل کی تھی اور دونوں بیٹیوں کو کوئی حصہ نہیں دیا تھا۔ دونوں خواتین بعد میں وراثت نامے کو چیلنج کیے بغیر ہی انتقال کر گئیں۔ لیکن 2004ء میں ان کے بچوں نے نانا کی وراثت پر دعویٰ کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: جہیز کی لعنت اور غریبوں پر بڑھتا ہوا بوجھ، ایک المیہ
گو کہ سوِل کورٹ نے اُن کے حق میں فیصلہ دیا تھا لیکن پہلے ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا اور اب سپریم کورٹ نے 2017ء کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے اسے برقرار رکھا ہے۔
اپنے فیصلے میں عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ خواتین کو اپنی زندگی ہی میں وراثت کا حق لینا ہوگا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کی اولاد اس پر دعویٰ نہیں کر سکتی۔
پاکستان کے قانون اور شریعت کے مطابق خواتین کو اپنے والدین کی جائیداد اور دولت میں حصہ ملنا چاہیے، لیکن اس کے باوجود مقامی روایات میں خواتین کو اس سے محروم رکھا جاتا ہے۔ شادی شدہ خواتین کو ان کے والد اور بھائی جائیداد میں حصہ اس لیے نہیں دیتے کیونکہ وہ اب اپنے شوہر کے گھر کی ہو چکی ہے اور شادی کے موقع پر اسے جہیز بھی دیا جا چکا ہے۔ یوں خواتین اپنے قانونی اور شرعی حق سے محروم کر دی جاتی ہیں۔
جواب دیں