اسما جان اور کنزیٰ ملک نے ورلڈ چیمپئن شپس میں نئی تاریخ رقم کر دی۔ دونوں رائیڈرز کسی انٹرنیشنل سائیکلنگ ایونٹ میں حصہ لینے والی پاکستان کی پہلی خواتین بن گئی ہیں۔
دونوں خواتین نے بیلجیئم میں جاری چیمپئن شپس میں چار رائیڈرز پر مشتمل ٹیم کے ساتھ انفرادی ٹائم ٹرائل مں حصہ لیا کہ جس میں دو مرد بھی شامل تھے۔ گو کہ پاکستان براہ راست کوالیفائی نہیں کر پایا تھا البتہ گورننگ باڈی کی خصوصی دعوت پر اس کے کھلاڑیوں کو شرکت کا موقع ملا تھا۔
اسما جان نے 51:49.31 کے نئے ذاتی ریکارڈ کے ساتھ اپنی رائیڈ مکمل کی اور کہا کہ "میں بہت شکر گزار ہوں، یہ میری زندگی کا سب سے شاندار تجربہ تھا۔ مجھے ریس مکمل کرنے کی بہت خوش ہے۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ اپنی خوشی کو بیان کر سکوں۔”
"تماشائی تو بہت ہی زبردست تھے۔ میں ان کی داد اور ریس کے ماحول کی وجہ سے اپنی بہترین کارکردگی دکھانا چاہتی تھی۔ ہمارا بہت خیر مقدم کیا گیا، اس لیے میں سب کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔”
پاکستانی ٹیم کو بیلجیئم میں ریس میں حصہ لینے کے لیے نجی طور پر سرمایہ دیا گیا تھا اور انہیں مینیجر شعیب نظامی کی سپورٹ حاصل تھی۔ البتہ زیادہ تر انحصار کھلاڑیوں کا خود ایک دوسرے پر تھا۔ اسما نے بتایا کہ ہماری ٹیم کے ایک رکن سائیکلوں کا کام بخوبی جانتے ہیں۔ گو کہ وہ مکینک نہیں، لیکن کام انہیں بہت اچھا آتا ہے۔ ہمیں شیمانو کی بھی مدد حاصل رہی۔ انہوں نے سائیکل کو فکس کرنے میں ہمارا ساتھ دیا۔”
45 سالہ اسما ورلڈ چیمپئن شپ میں حصہ لینے والی دوسری عمر رسیدہ ترین خاتون ہیں۔ یہ ریکارڈ امریکا کی امبر نیبن کے پاس ہے۔ اسما نے پچھلے سال ہی سائیکلنگ کا آغاز کیا ہے اور دنیا بھر میں کئی لوگوں کی طرح انہوں نے کرونا وائرس کی وبا کے بعد اپنی سائیکل چلانا شروع کی۔
انہوں نے کراچی میں واقع بائیکستان سائیکلنگ اکیڈمی میں داخلہ لیا اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
ان کی 34 سالہ ساتھی کنزیٰ ملک ایک مکینیکل انجینیئر ہیں۔ وہ بھی اس کھیل میں تاخیر سے آئیں اور چند سال پہلے ہی سائیکلنگ شروع کی ہے۔ وہ اب قومی روڈ ریس چیمپیئن ہیں اور برطانوی کوچ جوڈی ویرنگٹن کے ساتھ کام کر رہی ہیں جو مردوں کے قومی چیمپیئن کی تربیت بھی کر رہے ہیں۔
کنزیٰ نے 30.3 کلومیٹرز کا فاصلہ اسما سے تقریباً ایک منٹ پہلے عبور کیا۔ کہتی ہیں
"آغاز میں تو ایسا لگ رہا تھا دل کا دورہ پڑ جائے گا۔ لیکن اختتام بہت شاندار رہا۔ میں بہت خوش ہوں۔ یہ زندگی کا بہترین تجربہ تھا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اب ہماری نظریں اگلے سال آسٹریلین ورلڈ چیمپیئن شپ پر ہیں اور ایشین چیمپیئن شپ پر بھی۔ ہم ملک کے اندر کچھ پہاڑی علاقوں پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ ہمارا UCI سے مطالبہ ہے کہ وہ ان علاقوں پر نظر رکھے کیونکہ یہ غیر معمولی طور پر خوبصورت ہیں۔ سڑکیں اور انفرا اسٹرکچر بھی بہترین ہیں۔”
گو کہ کنزیٰ سائیکلنگ کی دنیا میں نئی داخل ہوئی ہیں لیکن ان کا خاندان اس کھیل میں کافی عرصے سے موجود ہے۔ ان کے دادا عبد الخالق مہتا تقسیمِ ہند سے پہلے ہندوستان میں نامور سائیکلسٹ تھے اور دوسری جنگِ عظیم سے پہلے اولمپکس کے لیے بھی منتخب ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کنزیٰ چاہتی ہیں کہ وہ اس مقام تک پہنچیں، جہاں ایک صدی پہلے ان کے دادا نہیں پہنچ پائے تھے۔ لیکن اس کے لیے پاکستان کو UCI پوائنٹس حاصل کرنا ہوں گے، جو اس وقت نہیں ہیں۔ "ہم چند روڈ ریس میں حصہ لینا چاہتے ہیں تاکہ ہم کچھ پوائنٹس حاصل کریں اور یوں پیرس میں ہونے والے اگلے اولمپکس میں جگہ بنا سکیں۔ یہ ہمارا ہدف ہے اور ان شاء اللہ ہم پیرس اولمپکس میں نظر آئیں گے۔”
جواب دیں