دنیا میں خواتین کو پہلی بار ووٹ کا حق آج سے 128 سال پہلے ملا تھا، لیکن ماہرین اور خواتین رہنما سمجھتی ہیں کہ بیشتر ممالک اب بھی سیاست کے میدان میں صنفی مساوات کی راہ پر گامزن نہیں ہیں اور چند ممالک میں تو اب بھی خواتین پریشان حال ہیں۔
نیوزی لینڈ 19 ستمبر 1893ء کو دنیا کا پہلا ملک بنا تھا کہ جس نے خواتین کو پارلیمانی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق دیا تھا۔ ترک خبر رساں ادارے سے بات کرتے نیوزی لینڈ کی سفیر برائے ترکی وینڈی ہنٹن کہتی ہیں کہ سیاسی خود مختاری کے حوالے سے یہ ایک بڑا قدم تھا، جب ملک میں ہر پانچ میں سے ایک خاتون نے اپنے حقوق کے لیے پٹیشن پر دستخط کیے تھے۔ لیکن ہمیں معلوم ہے کہ خواتین کو آج نیوزی لینڈ اور دنیا بھر میں بھی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔
ہنٹن نے کہا کہ
متوازن صنفی نمائندگی رکھنے والی دنیا ہی ایک بہتر، محفوظ تر اور زیادہ ترقی یافتہ دنیا ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں اہم عہدوں یہاں تک کہ سفیر کے عہدوں پر بھی زیادہ تر مرد موجود ہیں، یہ معاملہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ملک کے 80 اضلاع میں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کی تعداد مردوں سے 10 فیصد کم ہونے کا انکشاف
ملائیشیا کی سینیٹر فضلینہ صدیق کہتی ہیں کہ ووٹنگ خاص طور پر پسماندہ، مظلوم اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنے والے طبقات کے لیے وہ ضروری قدم ہے جو یقینی بناتا ہے کہ ہماری آواز سنی جا رہی ہے۔
یہ کہنا ہی غلط ہے کہ خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا۔ دراصل انہوں نے یہ حق جدوجہد سے حاصل کیا ہے۔ انہوں نے مارچ کیے، بھوک ہڑتالیں کیں، جدوجہد کی اور اس میں دہائیاں لگا دیں۔
ہنٹن نے اتفاق کیا کہ خواتین کے قائدانہ کردار اور پارلیمان، کام کی جگہوں، جامعات اور فیصلہ ساز اداروں میں ان کی موجودگی سے ہر عمر اور صنف کو فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
خواتین کی شمولیت بہتر قوانین، زیادہ منافع بخش کاروبار، فنون، ادب اور موسیقی کے استحکام، زیادہ پائدار امن معاہدوں اور زیادہ درست میڈیا کوریج، طبّی مشاورت اور سائنسی تحقیق کا سبب بنتی ہے۔ یہ خواتین، بچوں اور خاندانوں کو بہتر تحفظ دیتی ہے اور صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف جدوجہد میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔
قومی پارلیمانوں کے حوالے سے عالمی ادارے انٹر پارلیمنٹری یونین (IPU) نے مارچ میں اپنی آخری سالانہ ‘ویمن اِن پالیٹکس’ رپورٹ میں کہا تھا کہ 2030ء تک سیاست دنیا میں صنفی مساوات کا ہدف حاصل نہیں ہو سکتا۔
آئی پی یو سیکریٹری جنرل مارٹن چوگونگ نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پارلیمانی عہدوں پر خواتین کا عالمی اوسط اِس وقت 25.5 فیصد ہے جو تاریخ میں پہلی بار ایک چوتھائی تک پہنچا ہے،
یہ بھی پڑھیں: کیا عرب بہار کی سرگرم خواتین تونس کو تبدیل کر پائیں گی؟
چوگونگ نے کہا کہ موجودہ شرح سے خواتین کو پارلیمان میں صنفی مساوات پانے میں مزید 50 سال لگ جائیں گے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ صورت حال قابلِ قبول نہیں۔
ہنٹن نے کہا کہ تمام خواتین اور مردوں کے لیے یکساں نمائندگی "تمام شعبہ ہائے زندگی میں برابری” کی کی منزل تک پہنچا سکتی ہے۔
نیوزی لینڈ میں اب تک تین خواتین وزرائے اعظم رہ چکی ہیں، جن میں موجودہ وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرین بھی شامل ہیں جبکہ ایک چھوٹا سا افریقی ملک روانڈا اِس وقت پارلیمان میں خواتین کی نمائندگی میں سب سے آگے ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایک لڑکی کا خواب جو کئی خواتین کو با اختیار بنا رہا ہے
پاکستان کی سابق رکن پارلیمان سمیحہ راحیل قاضی کہتی ہیں کہ اسلام نے خواتین کو 1,400 سال پہلے حقوق دیے تھے۔ وہ جماعت اسلامی کی رکن اسمبلی کی حیثیت سے 2002ء سے 2007ء تک مجلسِ قانون ساز کا حصہ رہیں۔ انہوں نے کہا کہ
بحیثیتِ خاتون رکن مجھے کبھی اپنی پارلیمان یا اپنی سیاسی جماعت نے مایوس نہیں کیا۔ مجھے اسپیکر کی جانب سے بھی زیادہ وقت ملتا اور کبھی خاتون ہونے کی وجہ سے کوئی امتیاز نہیں برتا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ خواتین کے حقوق کے لیے پارلیمان میں ایک پانچ نکاتی ایجنڈا لائی تھیں۔ جس میں حقوق، تحفظ اور ضمانت کے علاوہ تعلیم، صحت، انصاف پر بھی زور دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ
یہ وہ حقوق ہیں جو خواتین کو اسلام نے دیے، لیکن معاشرہ دینے کو تیار نہیں ہے۔
سمیحہ راحیل نے کہا کہ جمہوریت کی روح یہ ہے کہ سب کی رائے اہم ہے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی پاکستان میں سب سے اعلیٰ جمہوری کلچر رکھتی ہے اور ان کی جماعت میں باقاعدہ اور مستقل بنیادوں پر انتخابات ہوتے ہیں اور رہنماؤں کا انتخاب مکمل جمہوری انداز میں ہوتا ہے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ پاکستان خواتین اب بھی پسماندہ ہیں اور ان کو با اختیار بنانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
Pingback: ایکسپو 2020ء میں کم عمری کی جبری شادیوں اور بچیوں کی تعلیم پر مذاکرہ - دی بلائنڈ سائڈ
Pingback: بیویوں کی تنخواہیں شوہروں جتنی نہیں، نیا عالمی سروے - دی بلائنڈ سائڈ