امن فوج پر جنسی استحصال کے متعدد الزامات کے بعد اقوامِ متحدہ نے گبون سے تعلق رکھنے والے تمام 450 امن فوجیوں کو وسطی افریقی جمہوریہ سے واپس بلا لیا ہے۔
اقوام متحدہ اور گبون کی وزارتِ دفاع نے اعلان کیا ہے کہ وہ جنسی استحصال کے دعووں کی تحقیقات کریں گے۔
وسطی افریقی جمہوریہ بر اعظم افریقہ کے وسط میں ہیرے اور سونے کی دولت سے مالا مال ایک ملک ہے کہ جو 2013ء میں سابق صدر کے خلاف بغاوت کے بعد سے عدم استحکام سے دوچار ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں اقوامِ متحدہ کی امن فوج موجود ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ امن فوج پر جنسی استحصال کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ 2015ء میں ایسے ہی معاملے پر امن مشن کے سابق سربراہ نے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کے بعد بھی 2016ء میں دوبارہ ایسے واقعات رونما ہوئے تھے۔ معاملہ محض وسطی افریقی جمہوریہ تک ہی محدود نہیں بلکہ 2017ء میں عوامی جمہوریہ کانگو میں بھی ایسے کئی واقعات سامنے آئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: امن مشن اور جنسی حملے، پاکستان اقوامِ متحدہ کے ضابطہ اخلاق سے وابستہ
اقوامِ متحدہ نے 2016ء میں وسطی افریقی جمہوریہ میں امن فوج کے 41 اہلکاروں کو جنسی استحصال میں کا مرتکب قرار دیا تھا اور ان کے ممالک پر زور دیا تھا کہ ان اہلکاروں کے خلاف کار روائیاں کریں۔ لیکن امن فوج کے کسی اہلکار کو جنسی بد چلنی پر کوئی سزا نہیں ہوئی۔
تازہ ترین واقعات کے مطابق گبون فوجی اہلکاروں، کہ جن کے نام اور تعداد ظاہر نہیں کی گئی، نے ملک کے وسطی علاقوں میں پانچ لڑکیوں کی آبرو ریزی کی ہے۔
Pingback: کانگو، عالمی ادارۂ صحت کے ملازمین کی جانب سے خواتین کے جنسی استحصال کا انکشاف - دی بلائنڈ سائڈ