جب ثمینہ بیگ نے 2013ء میں دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کی تھی اور یہ کارنامہ انجام دینے والی پاکستان کی تاریخ کی پہلی خاتون بنی تھیں، تب ملک میں کوہ پیمائی میں خواتین کی دلچسپی اتنی نمایاں نہیں تھی۔ اس سرگرمی کو زیادہ تر پہاڑی علاقوں کی خواتین تک ہی محدود سمجھا جاتا تھا۔
لیکن اب 2021ء میں ملک میں کوہ پیمائی اور ٹریکنگ میں کئی خواتین نظر آتی ہیں جو ہر پہاڑ اور مشکل ترین راستوں پر ٹریکنگ کرنا چاہتی ہیں۔ حال ہی میں طلبہ کے ایک گروپ نے گوندوگرو چوٹی سر کی ہے۔ اس میں صبا حلیم نامی ایک طالبہ بھی شامل ہیں کہ جو 5650 میٹر بلند گوندوگرو چوٹی تک پہنچنے والی پہلی پاکستانی خاتون بنی ہیں۔ البتہ گوندوگرو پاس تک بہت سی خواتین گئی ہیں۔
بہت سی پاکستانی خواتین ایسی ہیں جو اس سے بھی بلند یعنی 6 ہزار، 7 ہزار بلکہ 8 ہزار میٹرز کی چوٹیاں بھی سر کر چکی ہیں۔ حال ہی میں نائلہ کیانی نے پاکستان میں موجود کسی 8 ہزار میٹر سے زیادہ بلند کسی بھی چوٹی کو سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ انہوں نے 8,035 میٹر بلند گیشر برم II کو سر کیا۔ نائلہ کو پہلی بار شہرت تب ملی تھی جب انہوں نے 2018ء میں کے ٹو بیس کیمپ پر اپنی شادی کی فوٹوگرافی کروائی تھی۔ ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر بہت مقبول ہوئی تھیں۔
لیکن وہ کے ٹو کی دلہن سے بڑھ کر بھی کچھ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ "میں نے اپنی تصاویر اس لیے یہاں کھنچوائی تھیں کیونکہ میں اپنی شادی کو یادگار بنانا چاہتی تھی لیکن میں اسے کوئی کارنامہ نہیں سمجھتی۔ البتہ بہت سے لوگوں نے اس کے بعد کے ٹو بیس کیمپ کی ٹریکنگ اور کوہ پیمائی کے حوالے سے مجھ سے سوالات کیے، جو اچھی بات ہے۔ "اس ٹرپ پر مجھے بہت سے کوہ پیما اور پورٹر ملے جنہوں نے مجھے کوہ پیمائی کرنے کو کہا، تو میں نے ایسا کرنے کا فیصلہ کیا۔”
حیران کن طور پر ان کا پہلا ہدف گیشربرم II تھی اور انہوں نے یہ کامیابی سے سر بھی کی۔ کئی کوہ پیما آغاز چھوٹی چوٹیوں سے لیتے ہیں لیکن نائلہ نے مختلف راستہ چنا۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا کی مشکل ترین چوٹی پر تاریخ رقم کرنے کی خواہاں پاکستانی کوہ پیما
انہوں نے کہا کہ اب آہستہ آہستہ کوہ پیمائی کے حوالے سے لوگوں میں شعور پیدا ہو رہا ہے اور زیادہ سے زیادہ خواتین سامنے آ رہی ہیں۔ کئی لڑکیوں نے 6 ہزار اور7 ہزار میٹر سے بلند چوٹیاں سر کی ہیں، جو اچھی بات ہے۔ مجھے کئی لڑکیوں کی جانب سے اس حوالے سے پیغامات بھی موصول ہوتے ہیں کہ جو کوہ پیمائی کرنا چاہتی ہیں۔
اسلام آباد کی عظمیٰ یوسف نے 2017ء میں 7,027ش میٹر سپانتک سر کی تھی۔ وہ یہ کارنامہ انجام دینے والی پہلی پاکستانی خاتون تھیں جبکہ ان کی عمر اس وقت 43 سال تھی۔ اس کے بعد انہوں نے براڈ پیک سر کرنے کی بھی کوشش کی۔
ان کے سفر کا آغاز دراصل 2014ء میں فیری میڈوز کے ٹریک سے ہوا، جب ان کا خاندان گھوڑوں پر بیٹھ کر اوپر تک پہنچا، لیکن وہ یہ پورا سفر پیدل کرنے پر مصر رہیں، اور بالآخر ایسا کر بھی دکھایا۔
یہ بھی پڑھیں: بلند حوصلہ خاتون نےماؤنٹ ایورسٹ صرف 26 گھنٹوں میں سر کرلی
پھر 2015ء میں انہوں نے وادئ شمشال کی 6,150 میٹرز بلند منگلنگ سر کو فتح کیا۔ کہتی ہیں کہ آپ ان احساسات کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے جب آپ کسی چوٹی کے اوپر پہنچتے ہیں۔ آپ راستے میں آنے والی تمام تر تکالیف اور مصائب کو بھول کر خود کو فطرت کے قریب محسوس کرتے ہیں۔”
دنیا بھر میں موجود 8 ہزار میٹرز سے بلند 14 میں سے 5 چوٹیاں پاکستان میں ہیں جبکہ 7 ہزار اور 6 ہزار میٹرز کی تو ان گنت چوٹیاں وطنِ عزیز میں ہیں، جس کی وجہ سے یہ دنیا بھر کے کوہ پیماؤں کی توجہ کا مرکز ہے۔
Pingback: اسلام آباد میں ویمنز مارکیٹ بنائی جائے گی - دی بلائنڈ سائڈ
Pingback: ہبہ رحمانی، ناسا کی پاکستانی خاتون انجینئر - دی بلائنڈ سائڈ