پاکستان نے کہا ہے کہ وہ پھنسی لڑکیوں کی قومی یوتھ فٹ بال ٹیم کی اراکین کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے، جو اس وقت افغانستان میں پھنسی ہوئی ہیں۔ پاکستان کے سفارت خانے کے ایک خط کے مطابق وہ 32 لڑکیوں کو عارضی ویزے عطا دے گا۔
برطانوی اخبار ‘انڈیپنڈنٹ’ کے مطابق لڑکیاں تقریباً 80 افراد کے ساتھ ہیں، جن میں ان کے رشتہ دار اور کوچ بھی شامل ہیں۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے اُن کے اہل خانہ اور ٹیم کا عملہ بھی پاکستان میں داخل ہو پائے گا یا نہیں لیکن ایسا لگتا نہیں کہ یہ لڑکیاں اُن کے بغیر پاکستان میں داخل ہوں گی۔
اخبار نے بتایا تھا کہ افغانستان میں 32 فٹ بالر لڑکیاں پھنسی ہوئی ہیں، جنہوں نے ایک خط کے ذریعے وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے مطالبہ کیا تھا کہ ان کی فوری مدد کی جائے۔ خط میں عمران خان سے کہا گیا تھا کہ لڑکیوں اور ان کے اہل خانہ کو عارضی ویزے دیے جائیں تاکہ وہ پاکستان میں داخل ہو سکیں اور ساتھ ہی خبردار بھی کیا گیا تھا کہ اُن کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے اور لڑکیاں سنگین خطرے سے دو چار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان نے ویمنز کرکٹ پر پابندی لگائی تو افغانستان کے خلاف نہیں کھیلیں گے، آسٹریلیا کا اعلان
خط کے نیچے کاشف صدیقی کے دستخط ہیں، جو لندن میں پیدا ہونے والے پاکستانی فٹ بالر ہیں اور ‘فٹ بال فار پِیس’ نامی این جی او چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نو عمر اور نوجوان خواتین کھلاڑی افغانستان کی ویمنز فٹ بال ٹیم کے ساتھ اپنے براہ راست تعلق اور فٹ بال ٹورنامنٹس میں شرکت کی وجہ سے خطرے کی زد میں ہیں۔
انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی برطانیہ کی چیف ایگزیکٹو ساچا دیش مکھ کہتی ہیں کہ
پاکستان سے یہ خبر ملنے کے بعد سکھ کا سانس نصیب ہوا ہے لیکن یہ بات افسوس ناک ہے کہ محض فٹ بال کھیلنے پر ان لڑکیوں کو اپنی جان کا خطرہ ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کو کن حالات کا سامنا ہے۔
طالبان نے اپنے آخری دورِ اقتدار میں خواتین کے کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگائی تھی اور وہ بغیر محرم کے گھر سے باہر بھی نہیں نکل سکتی تھیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر ویمنز رائٹس ڈویژن ہیدر بار کا کہنا ہے کہ
یہ ایک زبردست خبر ہے کہ پاکستان نے افغانستان کی قومی خواتین فٹ بال ٹیم کی اراکین کو داخلے کی اجازت دے دی ہے۔ طالبان کی جانب سے گزشتہ ہفتے اس اعلان کے بعد کہ خواتین کو کوئی کھیل کھیلنے کی اجازت نہیں ہوگی، تو ٹیم کی اراکین کو درپیش خطرہ کہیں بڑھ گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو افغانستان کے پڑوسی ممالک کی مدد کرنی چاہیے تاکہ وہ ان کی فوری امداد کر سکیں۔
جواب دیں