ہم جس دور سے گزر رہے ہیں یہ ایک طرف تو بڑی تیزی سے ارتقائی منازل طے کررہا ہے۔ تو دوسری طرف کٹھن رکاوٹوں سے لبریز ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کے والدین تو دو دھاری تلوار کا مقابلہ کررہے ہیں۔ کیونکہ ایک طرف تو تربیت کرنا ہے کہ کہیں اللہ کے جواب دہ نہ ہوں۔ تو دوسری طرف معاشرے کے بدلتے رویوں سے ہم آہنگی بھی انتہائی ضروری ہے۔
تجربے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جن والدین نے اپنی اولاد کو گھر میں اعتماد و محبت کی فضا دی تو ان کی اولاد زیادہ کامیاب اور پراعتماد ثابت ہوئی۔ ویسے تو بہت سی باتیں بیٹے اور بیٹیوں دونوں کے لیے موافق ہیں لیکن میرا موضوع بحث یا موضوع تحریر خواتین ہیں۔ گھر سے ملا ہوا اعتماد اور حمایت انہیں باوقار اور پراعتماد بنادیتا ہے۔ وہ رشتوں کو زیادہ احسن طریقے سے نبھاتی ہیں۔ ذات کی پہچان اور قبولیت ان کے اندر احساس کمتری کو جگہ نہیں بنانے دیتی۔ ان کے اندر کا شعور انہیں مضبوطی دیتا ہے، کامیابی کی سمت دیتا ہے۔
جیسے قول مشہور ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہے۔ تو میرا ماننا ہے کہ عورت کی کامیابی کے پیچھے ان دو مضبوط ستونوں میں سے (ماں باپ) کوئی ایک بھی ہو تو وہ کامیاب ہوجاتی ہے۔ یعنی ماں باپ کی طرف سے اولاد کے لیے بہترین تحفہ ان کو بخشا ہوا اعتماد ہے۔
یہ بھی پڑھیں؛ "کچھ علاج اس کا بھی”۔۔۔آمنہ خرم
آج کل کے والدین وقت کی کمی کے ساتھ ساتھ اور بہت سے نئے فتنوں کا مقابلہ بھی کررہے ہیں۔ لیکن کچھ کُلیے ہر دور میں کارگر ثابت ہوئے ہیں۔ اس تحریر کا مقصد ان بنیادی نکات کو اجاگر کرنا ہے جو بحیثیت والدین ،اولاد اور خاص طور پر بیٹیوں کی تربیت میں ہماری رہنمائی کرسکتے ہیں۔ یہاں یہ بات ضرور بتانا چاہوں گی کہ ان میں سے زیادہ تر مجھے اپنے والد صاحب سے سیکھنے کو ملے۔ یقین کیجیئے کہ آج بھی کسی غلطی پر جب وہ تنقیدی اصلاح کرتے ہیں تو میں حیران ہوجاتی ہوں کہ واقعی ہم والدین بھی عقل کل نہیں بلکہ ہمیں بھی ہمیشہ ایک گائیڈ لائن کی ضرورت ہوتی ہے۔
سب سے پہلے تو اس حقیقت کو تسلیم کرلیجیئے کہ آپ کی بیٹی کی ایک اپنی شخصیت ہے۔ اس کے اندرآپ کی کچھ خصوصیات تو ہوسکتی ہیں یعنی وہ آپ کا عکس ہوسکتی ہے مگر آپ کی ذات نہیں۔ تو جو ضابطے اور توقعات اپنی ذات سے مشروط ہیں، ضروری نہیں وہ بھی اُسی دائرے میں مرکوز ہو تو بے جا توقعات مت لگائیے کہ وہ بڑی ہو کر آپ کے خواب پورے کرے۔ اس کی اپنی شخصیت ہے اور وہ اس کے مطابق ہی اپنے لیے انتخاب کرے گی، تو اُسے اس کا یہ بنیادی حق دیجیئے۔
گھر میں عزت و احترام کا ماحول دیجیئے۔ بہنوں اور بیٹیوں کو عزت و محبت دینا ہمارے پیارے نبی ﷺ کی سنت ہے۔ ان کی توقیر کیجیئے، تاکہ ان کی نظر میں اپنی ذات کی اہمیت ہو۔ وہ اسے حقیر سمجھ کر غلط فیصلے نہ کرتی پھریں بلکہ ایک اہم امانت کی طرح پیش آئیں۔
ان کا مقابلہ بہنوں یا بھائیوں سے مت کیجیئے۔ خوبصورتی، تعلیمی قابلیت، صلاحیت یا معاشی لحاظ سے انہیں نیچا مت دکھائیے۔ تاکہ وہ منفی خیالات سے از حد دور رہیں۔ اگر کسی میں پیدائشی طور پر کچھ کمی ہے تو بھی اسے اعتماد دیجیئے۔ تاکہ احساس کمتری جگہ نہ بنا سکے۔ بچیاں خاص طور پر بہت حساس ہوتی ہیں۔ ہمیشہ ان کی خوبیوں کو اجاگر کیجیئے۔ ان کی حوصلہ افزائی کیجیئے۔ اور یہ بتائیے کہ مکمل ہونا صرف اللہ پاک کی ذات سے منسوب ہے۔ نیز سوشل میڈیا اور دنیاوی، مصنوعی، تصنع بھری خوبصورتی سے متاثر ہو کر اللہ کی عطا کی ہوئی صلاحیتوں کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں؛ سچا دوست ۔ ۔ ۔ آمنہ خرم
ان کی غلطیوں پر انہیں شرمندہ مت کیجیئے۔ ابا جان کہتے ہیں کہ کیا ضروری ہے کہ وہ آپ کے سامنے غلطی مان لیں، بس نادم ہے تو کافی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ بھی ہماری ندامت کا مان رکھ لیتا ہے۔ ان کے والدین بنیے، ڈکٹیٹرز نہیں۔ وہ غلطیاں بھی کریں گے اور سیکھیں گے بھی۔
صفائی ستھرائی اور لباس کے انتخاب پہ بھی بنیادی اصول بچپن سے سکھانے شروع کردیں۔ مگر انہیں انتخاب کا حق بھی دیجیئے۔ آپ کے گھر کا جو ماحول ہے اس کے مطابق رہنمائی کیجیئے مگر دباؤ مت ڈالیں۔ انہیں آزادی بھی دیں۔ بہت زیادہ دباؤ انہیں سرکش بنا دے گا۔ ذرا سوچئے کہ کیا اس عمر میں جنت و دوزخ کی اتنی پرواہ ہوتی ہے؟ گھر کے ماحول اور زمانے کی رفتار میں ہم آہنگی ہونا بہت ضروری ہے۔
بچیوں میں بننے سنورنے کا رحجان بھی فطری ہے تو انہیں کسی حد تک اس کی بھی آزادی دیجیئے۔ ورنہ یاد رکھیئے بہت زیادہ گھٹن سے نتائج آپ کی توقع کے برعکس بھی ہوسکتے ہیں۔ اس بات کا مطلب مادر پدر آزادی نہیں بلکہ اس عمر کی نفسیات اور فطری تقاضوں کی طمانیت ہے۔ اگر آپ ان کی تربیت پر نظر رکھے ہوئے ہیں تو یقین رکھیے وہ واپس اسی سانچے میں ڈھل جائیں گی۔
ایک اور سچ قبول کرنے کی ضرورت ہے کہ پندرہ/سولہ یا ایک خاص عمر میں پہنچ کر صنف مخالف کی طرف رغبت بھی ایک جبلی تقاضہ ہے۔ اور جبلت قدرت کے نظام کے تحت ہی چلتی ہے۔ یہ ایم اے، پی ایچ ڈی، مستقبل، کیریئر اور معاشی طور پر مستحکم کے قوانین قدرت نے وضع نہیں کیے۔ ہم نے خود ہی بنائے ہیں۔ گھڑی تو اپنی رفتار سے چلے گی۔ صرف انہیں سوچ اور احساس دیں کہ یہ "کمٹمنٹ” ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جسے نبھانے کے لیے ذہنی، جسمانی اور معاشی اعتبار سے مضبوط ہونا ضروری ہے۔ تاکہ رشتے بنانا اور نبھانا ان کے لیے سہل مگر سنجیدہ عمل ہو۔
یہ بھی پڑھیں؛ "فقط وقت کی تو بات ہے”
ایک بات اور عرض کردوں کہ خدارا کسی کو پسند کر بیٹھیں تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ اسلام ہمیں پسند اور رغبت سے شادی کرنے کا درس دیتا ہے۔ یہ بچپن کے طے شدہ رشتے، والدین کی زبان پہ رضامندی، زبردستی کے بادل نخواستہ کیے ہوئے نکاح ، کا اسلام کے نکاح کے قوانین سے دور قریب کا کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ دل اور چاہت سے اپنائے ہوئے رشتوں کو زیادہ فوقیت دی گئی ہے۔ گھر میں ایسا ماحول رکھیے کہ وہ ہر بات آپ سے کرنے میں بالکل جھجک محسوس نہ کریں۔ ان کے رہبر بن جائیے۔ ان کے غمگسار بن جائیے۔ یقین رکھیے وہ بالکل بھی نہیں بھٹکیں گے۔
معاشی لحاظ سے بھی خاص کر بچیوں کو مضبوط بنائیے تاکہ زندگی کے اتار چڑھاؤ میں وہ کسی پر بوجھ نہ ہوں۔ اور باپ، بھائی کی محتاج نہ ہوں۔ ورنہ صرف معاشی انحصار بھی انہیں بعض اوقات غلط رشتوں کو نبھانے پر مجبور کیے رکھتا ہے۔ اور اگر بہت کوشش کے باوجود رشتہ نہ نبھ سکے تو اسے مجبور مت کریں کہ جہاں ذہنی ہم آہنگی نہیں یا اس کی ذات کی قبولیت نہیں، یا سرے سے انسانی حقوق کا وجود نہیں، وہاں وہ آپ کی عزت و توقیر کے لیے روز رسوا ہوتی رہے۔ یا بعض اوقات تو جان سے بھی بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ سمجھ جائیے کہ اسے ایک بار پھر آپ کی بھرپور حمایت کی ضرورت ہے۔ یہ آپ پر فرض ہے اسی طرح جیسے اسے بیاہنے سے پہلے تھا۔ اسے معاشرتی اور قانونی تحفظ دیجیئے۔
ان کے فیصلے اگر آپ کی پسند کے برعکس بھی ہوں تب بھی ان کی ڈھال بنے رہیے۔ انہیں ہرگز تنہا نہ کریں۔ انہیں بتائیے کہ ان کے محرم رشتوں کے علاوہ کوئی بھی ان کے لیے مخلص نہیں ہوسکتا۔ جب آپ کی شفقت اور رہنمائی ہوگی تو انہیں باہر سے کسی سے مستعار لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
آخر میں صرف یہ کہوں گی کہ ان پر حکمرانی کا اختیار بحیثیت والدین ہمیں بھی نہیں دیا گیا۔ بحیثیت بشر سب آزاد ہیں۔ انہیں سانس لینے دیں، آگے بڑھنے دیں۔ اصلاح کیجیئے مگر زندگی تنگ نہ کیجیئے۔ کیونکہ باشعور اور پراعتماد خواتین ہی ایک سلجھے ہوئے تہذیب یافتہ معاشرے کی بنیاد رکھتی ہیں۔
Pingback: " صبر سے تھپڑ تک " ۔۔۔ آمنہ خرم - دی بلائنڈ سائڈ