”لوگوں کو سمجھانا بہت مشکل ہے۔ اسکول میں جب سے کھیلوں میں حصہ لینا شروع کیا ہے، میں تب سے جیولن تھرو کر رہی ہوں۔ لیکن اولمپکس میں ارشد ندیم کی شرکت سے پہلے کسی کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ آخر میں کس کھیل کی تربیت لے رہی ہوں؟” یہ کہنا تھا نوعمر پاکستانی فاطمہ حسین کا جو پاکستان کی بہترین جیولن تھرو کھلاڑی ہیں۔
ایتھلیٹکس اور اس کے تحت آنے والے تمام کھیلوں کو پاکستان میں بُری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے۔ واپڈا کے لیے کھیلنے والی فاطمہ کے لیے جدوجہد کا پہلا مرحلہ لوگوں کو یہ سمجھانا ہے کہ آخر وہ کس کھیل کی دیوانی ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کرکٹ کے علاوہ چند ایک کھیل ہی معروف ہیں، ان کے علاوہ دوسرے کھیل کھیلنے والے تو ویسے ہی کسی گنتی میں نہیں آتے۔
فاطمہ بتاتی ہیں کہ ارشد ندیم کی کارکردگی کی وجہ سے کم از کم لوگ اب اس کھیل کو سمجھنے لگے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کھیلوں میں خواتین کی نمائندگی کیوں ضروری ہے؟
فیصل آباد میں رہنے والی فاطمہ سمیت دیگر کئی پاکستانی ٹریک اینڈ فیلڈ کھلاڑیوں کے لیے ٹوکیو اولمپکس 2020ء میں ارشد ندیم کی کارکردگی نے نئے دروازے کھولے ہیں۔
ارشد ندیم عرصہ دراز کے بعد اولمپکس میں کسی ٹریک اینڈ فیلڈ ایونٹ کے لیے براہ راست کوالیفائی کرنے والے پہلے پاکستانی بنے تھے۔ گو کہ وہ پانچویں نمبر پر آئے لیکن فائنل کے لیے کوالیفائی بھی کیا اور بہترین کارکردگی دکھائی۔
23 سالہ فاطمہ امید کرتی ہیں کہ مستقبل میں ٹریک اینڈ فیلڈ کھلاڑیوں کو کافی سپورٹ ملے گی۔ بتاتی ہیں کہ میں نے اسکول میں کھیلنا شروع کیا۔ بہت سے لوگوں نے کہا کہ کرکٹ کھیلوں یا کچھ اور۔ عرصے تک تو میں نے اپنے والدین کو بھی نہیں بتایا کہ میں جیولن تھرو کر رہی ہوں۔ لیکن اساتذہ نے بڑی مدد کی اور والدین کو بھی انہوں نے ہی بتایا۔
انہوں نے کہا کہ
خواتین کے لیے کوئی بھی کھیل کھیلنا آسان نہیں ہے، یہاں تک کہ گھر سے سپورٹ ملے تب بھی۔ کیونکہ جب تربیت کے لیے جاتے ہیں تو مرد ہمارے لباس اور حلیے کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ہمیں اسپورٹس شوز پہنے دیکھ کر کچھ کہتے ہیں، آؤ ہمارے ساتھ دوڑ لگاؤ۔ یہ زندگی کا وہ مرحلہ ہے جس سے ہمیں گزرنا ہی پڑتا ہے۔ آسان نہیں ہوتا لیکن ہم نظر انداز کر کے گزر جاتے ہیں۔
فاطمہ نے 2017ء کے اسلامی یکجہتی کھیلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی جبکہ قومی سطح پر وہ نمبر ایک جیولن تھرو کھلاڑی ہیں اور 2016ء میں پہلی بار منظر عام پر آنے کے بعد سے اب تک پانچ سونے کے اور کئی چاندی کے تمغے جیت چکی ہیں۔
وہ 2019ء کے قومی کھیلوں میں بہترین کھلاڑی رہیں کہ جب انہوں نے پشاور میں 43.93 میٹر کا تھرو پھینکا تھا۔ 2018ء میں ہونے والی چیمپیئن شپ میں انہوں نے 39.13 میٹر کا تھرو پھینکا تھا، اس کے باوجود پہلے نمبر پر آئیں۔ لیکن وہ سمجھتی ہیں کہ مقابلوں کی کمی کی وجہ سے وہ اور دیگر کھلاڑی پریشان ہیں۔
ہمیں کافی مقابلوں میں حصہ لینے کا موقع نہیں ملتا۔ آخری بڑا مقابلہ، جس میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی، اسے دو سال ہو چکے ہیں۔ قومی ریکارڈ 44.78 میٹرز کا ہے اور میں 43.93 میٹرز تک پہنچ چکی ہوں۔ کارکردگی بہتر ہو رہی ہے لیکن مقابلوں میں حصہ لینے کا موقع نہیں مل رہا۔ اگر ایسا ہو جائے تو فارم اور تکنیک کو بہتر بنانے کے مواقع میسر آئیں گے اور قومی ریکارڈ بھی دور نہیں۔
جواب دیں