خواتین کو طلاق دینے کے قانونی حق کا علم ہونا چاہیے، نادیہ حسین

لاعلمی میں کسی کو نکاح نامے کی دفعہ 18 پر خطِ تنسیخ نہ پھیرنے دیں، مطالبہ

ماڈل نادیہ حسین نے ایک بہت اہم معاملے پر توجہ دلانے کے لیے سوشل میڈیا کا رخ کیا ہے، یعنی پاکستان میں خواتین کو حاصل طلاق کا حق۔ انہوں نے زور دیا کہ تمام خواتین کو شادی کے وقت اور اس کے بعد اپنے اس حق سے آگاہ ہونا چاہیے۔

انہوں نے اپنی انسٹاگرام پوسٹ میں عائلی قوانین 1961ء اور نکاح نامے کی دفعہ 18 کی تصاویر بھی شیئر کی ہیں، جو خواتین کو اپنے شوہر کو طلاق دینے کا قانونی حق دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "تمام خواتین کو نکاح نامے کی دفعہ 18 کے بارے میں پتہ ہونا چاہیے اور آپ کے علم میں لائے بغیر یا آپ کی اجازت کے بغیر کوئی اس پر خط تنسیخ نہ پھیرے۔”

نادیہ حسین نے کہا کہ عام معاشرتی غلط فہمی یہ ہے کہ خاتون کے پاس طلاق کا حق نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ ‘جذباتی’ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ چھوٹی موٹی اور نامعقول سی وجوہات کی بنا پر شادی ختم کر بیٹھے گی۔ انہوں نے کہا کہ

کوئی عقل مند خاتون اگر وہ خوش ہو اور اس سے محبت کی جاتی ہو تو وہ جان بوجھ کر اپنی شادی شدہ زندگی اور اپنا گھر برباد نہیں کرے گی۔ لیکن عورت کے پاس اختیار ہونا چاہیے کہ اس کے پاس مصیبت بھری شادی سے نکلنے کا راستہ ہو۔

ماڈل نے اپنے نکاح نامے کی تصویر بھی شیئر کی اور وڈیو میں کہا کہ

میں آپ کو نکاح نامے کے بارے میں بہت اہم بات بتانے جا رہی ہوں۔ بہت سے مرد اور خواتین یہ نہیں مانتے کہ بیوی کے پاس طلاق دینے کا قانونی حق ہوتا ہے۔ میں لوگوں کو گمراہ نہیں کرنا چاہتی لیکن انہیں اپنے حقوق کے بارے میں بتانا چاہتی ہوں۔

نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز کے مطابق پاکستان میں 15 سے 45 سال کی 24.5 فیصد شادی شدہ خواتین کو اپنے ساتھی کی جانب سے زندگی میں کم از کم ایک بار جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طلاق کا حق یقینی بناتا ہے کہ شادی کے دوران کسی بھی ظلم سے بچنے کے لیے عورت کے پاس فرار کا راستہ ہو۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے