جوڈیشل کمیشن آف پاکستان ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ میں جسٹس عائشہ ملک نامزدگی پر غور کرے گا اور تصدیق ہونے کی صورت میں وہ پاکستان میں چیف جسٹس بننے والی پہلی خاتون بن جائیں گی۔
پاکستان جنوبی ایشیا کا واحد ملک ہے جہاں کبھی کوئی خاتون سپریم کورٹ کی جج نہیں رہیں، جو اس شعبے میں رائج صنفی عدم مساوات اور مجموعی معاشرتی رویّوں کو ظاہر کرتا ہے۔ تحقیق نے پایا کہ پاکستان میں اعلیٰ عدالتوں کی صرف 4 فیصد جج خواتین ہیں جبکہ نچلے درجے کی اور اعلیٰ عدالتوں کے کُل 3,005 ججوں میں سے صرف 519 خواتین ہیں، یعنی 17 فیصد۔
گو کہ چند خواتین ضلعی عدالتوں کی سربراہ ضرور ہیں، لیکن انہیں کبھی سپریم کورٹ کے لیے نامزد نہیں کیا گیا۔ حالانکہ پاکستان نے حنا جیلانی اور عاصمہ جہانگیر جیسی بین الاقوامی طور پر معروف وکلا کو جنم دیا ہے، لیکن کبھی کوئی خاتون پاکستان بار کونسل کی رکن نہیں رہیں۔ عاصمہ جہانگیر واحد خاتون وکیل ہیں کہ جو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر بنیں۔
پاکستان کو ایسی وکیلوں اور ججوں کی سخت ضرورت ہے جو معاشرے میں خواتین کو درپیش سنگین مسائل کو سمجھیں۔ خواتین پر تشدد، ریپ، نام نہاد "غیرت” کے نام پر قتل، تیزاب گردی، گھریلو تشدد اور جبری شادیاں ملک میں عام ہیں اور خواتین کو عموماً روزگار کے معاملے میں بھی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ تعلیم و صحت تک یکساں رسائی بھی نہیں رکھتیں۔
قانونی شعبے میں خواتین کی نمائندگی کم ہونے کے معاشرتی رویّوں پر بھی اثرات پڑتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا کی اکثریت صنفی مساوات کی حامی، لیکن حقائق کیا کہتے ہیں؟
پاکستان کا آئین ملک کے تمام شہریوں کو یکساں سمجھتا ہے اور صنف کی بنیاد پر امتیاز سے روکتا ہے۔ پاکستان خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کے کنونشن کی توثیق کرتا ہے، جو حکومتوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ ملک میں خواتین کو ہر قسم کے امتیازات سے بچانے کے لیے اقدامات اٹھائے اور یقینی بنائے کہ خواتین تمام سرکاری اداروں میں مردوں کے ساتھ یکساں بنیادوں پر کام کریں۔
اس لیے سپریم کورٹ میں ایک خاتون کا تقرر ملک میں صنفی عدم مساوات کے خاتمے کی جانب ایک اہم قدم ہوگا کیونکہ اس سے اعلیٰ عہدوں پر خواتین کی یکساں نمائندگی کی راہ میں حائل رکاوٹوں ختم ہوں گی جو پاکستان میں خواتین پر مظالم میں کمی اور حقیقی اصلاحات کے نفاذ کا باعث بنے گا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹُو-فنگر ٹیسٹ غیر قانونی اور آئین سے متصادم ہے، لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ
پاکستان کی سپریم کورٹ میں کُل 17 ججز ہوتے ہیں، جن میں سے ایک جسٹس مشیر عالم کی ریٹائرمنٹ سے ایک جگہ خالی ہوئی ہے، جس پر جسٹس عائشہ ملک کو نامزد کیا گیا ہے۔
55 سالہ جسٹس عائشہ ملک نے ابتدائی تعلیم کراچی گرامر اسکول سے حاصل کی اور پھر پاکستان کالج آف لا، لاہور سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد امریکا کے ہارورڈ لا اسکول سے ایل ایل ایم کیا۔ 2012ء میں انہیں لاہور ہائی کورٹ میں تعینات کیا گیا۔ ان کا سب سے تاریخی فیصلہ جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین کے لیے کیے جانے والے بدنام زمانہ ‘ٹو فنگر’ ٹیسٹ کے خلاف تھا۔
جواب دیں