ملک کے 14 اضلاع میں ‘احساس’ پروگرام پر ہونے والی پیش رفت، حاصل کردہ کامیابیوں اور ان سے سیکھے گئے اسباق کا جائزہ لینے کے لیے ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔
اس موقع پر پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان سے ‘احساس نشو و نما’ کی فیلڈ ٹیموں کے نمائندوں کے علاوہ عالمی ادارۂ خوراک (ورلڈ فوڈ پروگرام) کے ماہرین بھی موجود تھے۔
غربت کے خاتمے اور سماجی تحفظ کے لیے وزیر اعظم کی خصوصی مشیر ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے ‘احساس نشو و نما’ پروگرام کو توسیع دینے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ ملک کے پسماندہ علاقوں میں دو سال سے بڑی عمر کے بچوں کی نشو و نما رک جانے، وزن کی کمی یا زیادتی کے عام مسائل سے نمٹا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اس منصوبے کو ملک بھر میں توسیع دینے کا ارادہ رکھتی ہے، بالخصوص پسماندہ علاقوں میں۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے دشوار گزار علاقوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ‘موبائل احساس نشو و نما سینٹرز’ متعارف کروانے کے امکانات پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا کمزور شعبہ صحت اور ڈاکٹر دلہنوں کا مسئلہ
’احساس’ پروگرام کے تحت 66 ہزار سے زیادہ حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین اور دو سال سے کم عمر کے بچوں کو غذائیت فراہم کرنے کے لیے رجسٹرڈ کیا جا چکا ہے۔
اس پروگرام کا بنیادی مقصد نشو و نما کے رک جانے، وزن کم ہونے یا زیادہ ہونے یا دیگر پیچیدگیوں سے بچانا ہے جو عموماً پسماندہ علاقوں کی غریب حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین اور بچوں میں ہوتی ہیں کیونکہ غربت کی وجہ سے وہ مناسب خوراک تک رسائی نہیں رکھ پاتے اور نتیجتاً صحت کے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔
اِس وقت پنجاب، سندھ خیبر پختونخوا، بلوچستان، اسلام آباد، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے ان 14 اضلاع میں 50 نشو و نما مراکز قائم کیے جا چکے ہیں کہ جہاں یہ مسائل ممکنہ طور پر سب سے زیادہ ہیں۔
جواب دیں