دنیا میں ہر سال 10 ستمبر کو انسدادِ خودکشی کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور یہی وہ موقع ہے جب تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 325 ختم کرنے کا مطالبہ بڑھ چڑھ کر ہوتا ہے کیونکہ یہ قانون برطانوی راج کی باقیات ہے۔ اس قانون کے تحت اقدامِ خود کشی یعنی اپنی جان لینے کی کوشش کرنا ایک جرم ہے اور یہ حرکت کرنے والے کو ایک سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ پاکستان برطانوی راج کے زمانے کے اس قانون کو اب بھی لے کر چل رہا ہے حالانکہ برطانیہ نے خود 1961ء میں اس کا خاتمہ کر دیا تھا۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق پاکستان میں ہر سال 1,30,000 سے 2,70,000 کے درمیان اقدامِ خود کشی ہوتے ہیں۔ سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی کی پنج سالہ تحقیق کے مطابق 2016ء سے 2020ء کے دوران صرف سندھ میں خود کشی کے 767 واقعات سامنے آئے، جن میں سب سے زیادہ واقعات ضلع تھرپارکر میں پیش آئے جن کی تعداد 79 رہی۔ اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ 60 فیصد شکار نو عمر افراد تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اتھارٹی نے جون 2021ء میں خود کشی کے ان واقعات کی وجوہات ڈھونڈنے کے لیے ایک جائزہ لیا اور پایا کہ بیشتر ایسے واقعات کم آمدنی رکھنے والے طبقے میں ہوئے ہیں اور اتھارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر کریم خواجہ کے مطابق لوگ ذہنی امراض کا علاج نہ ہونے اور غربت کی وجہ سے متاثر ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی خواتین خود سوزی اور اقدامِ خود کشی کیوں کر رہی ہیں؟
اس قبل مئی میں چترال میں 24 گھنٹے میں خود کشی کے تین واقعات پیش آئے جن میں سے دو رشتہ لڑکیوں نے دریائے چترال میں کود کر خود کشی کی جبکہ ایک علیحدہ واقعے میں ایک شخص نے خود کو چاقو مار کر اپنی جان لے لی۔ چترال میں خود کشی کا رجحان زیادہ ہونے کی وجہ غربت، روزگار کے کم مواقع اور جبری شادیاں ہیں۔ ان نتائج سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر کوئی شخص سماجی و معاشی وجوہات کی بنا پر خود کشی کی کوشش کرے تو کیا ریاست ذمہ دار نہیں ہوگی؟
عموماً خود کشی کا سبب ذہنی مسائل کو سمجھا جاتا ہے لیکن پاکستان جیسے کم آمدنی والے ملک میں اس کی وجہ معاشی، سماجی اور ثقافتی حقائق بھی ہیں۔ اس لیے خود کشی کے واقعات کم کرنے کے لیے ذہنی صحت کے مسائل سمیت دیگر کئی پہلوؤں پر بھی توجہ دینا ہوگی۔
پاکستان سمیت اس وقت کم از کم 25 ممالک ایسے ہیں جہاں خود کشی غیر قانونی ہے اور مزید 10 ممالک میں اقدام خود کشی پر سزا دی جاتی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کا ‘جامع ذہنی صحت کا ایکشن پلان’ خود کشی کی جرم والی حیثیت ختم کرنے کا ہدف رکھتا ہے اور یقینی بناتا ہے کہ ضرورت مند افراد کو مناسب خدمات میسر ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: سابق شوہر نے معیوب وڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کردی، خاتون کی خود کشی
سابق سینیٹر ڈاکٹر کریم خواجہ کہتے ہیں کہ
خود کشی ذہنی دباؤ کی علامت ہے، کوئی مجرمانہ رویہ نہیں ہے۔ یہ قدم ذہنی تناؤ کی انتہائی شدت کو ظاہر کرتا ہے، اس لیے ریاست کا کردار ایسے لوگوں کا علاج کرنا ہے، انہیں سزا دینا نہیں۔
ڈاکٹر خواجہ نے 2017ء میں اس قانون میں تبدیلی کے لیے ایک بل بھی پیش کیا تھا جو سینیٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل نے اتفاقِ رائے سے منظور کیا، لیکن قومی اسمبلی سے منظوری نہ مل سکی اور بالآخر گزشتہ حکومت کے خاتمے کے ساتھ اس مجوزہ قانون کا بھی خاتمہ ہو گیا۔
حالیہ چند سالوں کے دوران پڑوسی ملک بھارت کے علاوہ سری لنکا، لبنان اور قبرص سمیت کئی ممالک نے اس قانون کا خاتمہ کیا ہے۔ اس میں سول سوسائٹی کا دباؤ، حکومت اور قانون ساز اداروں میں آنے والی تبدیلیاں اور چند ملکوں کی مذہبی قیادت کی حمایت بھی شامل ہے۔
خود کشی کو جرائم کی فہرست سے نکالنا ذہنی صحت سے جڑی بدنامی کو ختم کرنے کی جانب پہلا قدم ہوگا۔ پھر ذہنی صحت پر کام بھی کرنا ہوگا تاکہ اس حوالے سے عوامی کو پورا کیا جا سکے۔ اس ضمن میں پولیس، طبّی عملے، ڈاکٹروں، وکلا اور مذہبی رہنماؤں کی تربیت بھی ضروری ہوگی۔
جواب دیں