بھارت کی مشرقی ریاست بہار سے تعلق رکھنے والی سونم کماری نے گزشتہ سال اُس وقت اپنا گھر چھوڑ دیا تھا، جب ان کے والدین انہیں بیاہنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔
پٹنہ کی رہائشی 19 سالہ سونم نے اپنے والدین کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ اسے تعلیم حاصل کرنے دیں اور شادی کو مؤخر کریں
لیکن جب کسی التجا کا مثبت رد عمل نہ آیا تو انہوں نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ آج وہ وہاں سے 1,100 کلومیٹرز دور شمالی ریاست ہریانہ کے شہر گروگرام میں رہتی ہیں۔ جہاں کالج کی تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ملازمت بھی کر رہی ہیں۔
سونم کہتی ہیں کہ
میں پڑھنا چاہتی تھی لیکن والدین نے میری کوئی بات نہیں سنی۔ اس کے بعد میرے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا، سوائے اس کے انہیں اور گھر کو چھوڑ دوں۔
گو کہ وہ اپنے والدین سے کافی دُور ہیں لیکن شادی کرنے کا دباؤ اب بھی کم نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے گزشتہ ماہ وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا، جس میں ان پر زور دیا گیا کہ وہ لڑکوں کی طرح لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر بھی 21 سال کریں تاکہ لڑکیوں کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کا موقع مل سکے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی خاتون کی جدوجہد کا نتیجہ، امریکا میں نائلہ قانون منظور
اس داستان نے ہریانہ میں ایک خاموش تحریک کو جنم دیا ہے، جو ویسے ہی صنفی تناسب کے لحاظ سے بھارت کی بد ترین ریاست ہے۔ یہاں ہر ایک ہزار مردوں پر خواتین کی تعداد صرف 879 ہے۔
اب ریاست کی سینکڑوں لڑکیاں وزیر اعظم کو ایسے ہی خط لکھ چکی ہیں، جنہوں نے گزشتہ سال خواتین کی شادی کی کم از کم عمر بڑھانے کا وعدہ بھی کیا تھا۔
اِس وقت بھارت کے قانون کے مطابق شادی کے لیے خواتین کی کم از کم عمر 18 اور مردوں کی 21 سال ہونی چاہیے۔ گزشتہ سال جون میں حکومت نے لڑکیوں میں غذائیت کی کمی اور ان کی شادی کی درست عمر طے کرنے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے اپنی رپورٹ رواں سال جنوری میں جمع کروائی تھی لیکن اب تک اس سمت میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
اس صورت حال میں ہریانہ کی لڑکیاں وزیر اعظم کو خطوط لکھ رہی ہیں اور اب تک تقریباً 800 خطوط بھیجے جا چکے ہیں، جن کا زور بنیادی طور پر اس بات پر ہے کہ لڑکیاں شادی سے پہلے اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کرونا وائرس اور بچپن کی شادیوں میں اضافہ
ضلع حصار کی پریاکشی کہتی ہیں کہ
"18 سال کی عمر میں تو لڑکی بمشکل اسکول کی تعلیم ہی مکمل کر پاتی ہے اور گریجویشن 21 سال کی عمر میں۔ بہتر ملازمت یا اپنے بل بوتے پر کوئی کام کرنے کے لیے گریجویٹ لڑکی کے پاس زیادہ آپشنز ہوتے ہیں۔”
انجو کہتی ہیں کہ "میرا تو ذاتی تجربہ ہے۔ میری ایک کزن کی شادی کم عمری میں ہو گئی تھی، جبکہ اس نے ابھی دسویں کا امتحان ہی پاس کیا تھا۔ یہ شادی چل نہیں پائی جبکہ اس نے ایک بچے کو جنم بھی دیا۔ اب میاں بیوی میں علیحدگی ہو چکی ہے اور اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ میں سوچتی ہوں کہ اگر اسے اپنی تعلیم مکمل کرنے کا موقع مل جاتا تو آج بہتر حالت میں ہوتی۔”
ہریانہ کے مسلم اکثریتی علاقہ میوات کی مبشرہ نے نئی دہلی کی جامعہ اسلامیہ سے گریجویشن کیا ہے۔ اب وہ اپنے ضلع میں نو عمر لڑکیوں کو پڑھاتی ہیں۔ وزیر اعظم کو خطوط بھیجنے کی اس مہم میں ان کا بڑا نمایاں کردار ہے۔ کہتی ہیں
"میں نو عمر لڑکیوں کو پڑھاتی ہوں اور کالج میں ایک سال کی تعلیم کے بعد ہی ان کی شادیاں ہو جاتی ہیں اور یوں ان کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔ اس عمر میں تو وہ گھریلو ذمہ داریاں بھی ٹھیک سے انجام نہیں دے پاتیں۔ حمل کی وجہ سے صحت کے مسائل الگ ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمیں انتظار کرنا چاہیے کہ لڑکیوں کی عمر پختہ ہو جائے، ان کی تعلیم تکمیل تک پہنچ جائے اور جب وہ ذہنی طور پر تیار ہوں تبھی ان کی شادی کروائی جائے۔”
میوات ہی سے تعلق رکھنے والی قانون کی طالبہ تبسم مسکان نے بھی وزیر اعظم کو خط لکھا ہے، کہتی ہیں مجھے کرکٹ کھیلنا پسند ہے اور میں اسے اپنا کیریئر بنانا چاہتی ہوں۔ ہم لڑکیوں کو بھی موقع ملنا چاہیے، پھر دیکھیں ہم مختلف شعبوں میں کس طرح آگے نکلتی ہیں اور ملک کا نام روشن کرتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت میں کووِڈ بحران اور کم عمری کی شادی کا مسئلہ
خط لکھنے کی اس مہم کی پسِ پردہ اصل شخصیت سنیل جگلان کی ہے، جو ہریانہ کے ضلع جند میں ایک مقامی کونسل کے سابق سربراہ ہیں۔ بتاتے ہیں کہ وہ 10 سال سے زیادہ عرصے سے خواتین کو با اختیار بنانے پر کام کر رہے ہیں۔ "جب تک ہر خاتون کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں آتی ہمارا مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ یہ مسکراہٹ تین طریقوں سے آ سکتی ہیں: تعلیم، صحت اور خواتین کی مالی خود مختاری۔ ہمیں ان کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔ اگر ہم شادی کی عمر بڑھائیں تو لڑکیوں کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کا موقع ملے گا۔ ایک مرتبہ تعلیم مکمل ہو جائے تو وہ اپنے فیصلوں کے لیے بہتر کیفیت کی حامل ہو جائیں گی۔”
اتر پردیش کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ویمنز اسٹڈیز کے پروفیسر شاہ عالم کہتے ہیں کہ
خواتین کے لیے شادی کی درست عمر کی بحث عرصے سے جاری ہے اور اس وقت قانوناً خواتین کی کم از کم عمر 18 سال اور مرد کے لیے 21 سال ہے، یہ کھلا صنفی امتیاز اور صنفی مساوات کی خلاف ورزی ہے۔ "جب ووٹ ڈالنے کی عمر 18 سال ہے اور دونوں کے لیے ایسا ہی ہے تو شادی کے لیے رضامندی کی عمر بھی یکساں ہونی چاہیے۔”
دانشور اور حقوقِ نسواں کی کارکن روپ ریکھا ورما بھی سمجھتی ہیں کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے شادی کی الگ عمر طے کرنا "دقیانوسی سوچ ہے” اور اس کا کوئی سائنسی یا سماجی ثبوت نہیں ملتا جس کی بنیاد پر دونوں کے لیے شادی کی الگ عمریں رکھی جائیں۔
Pingback: صنفی مساوات، دلہن کی شیروانی اور پگڑی پہنے گھوڑے پر آمد - دی بلائنڈ سائڈ