سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے اینٹی ریپ بل 2021ء کی منظوری دے دی ہے ۔
قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس سربراہ سید علی ظفر کی زیر صدارت ہوا کہ جس میں اراکین اعظم نذیر تارڑ، فاروق حمید نائیک، کامران مرتضیٰ، میاں رضا ربانی، محمد اعظم خان سواتی، محمد ہمایوں مہمند، مصدق مسعود ملک، مصطفیٰ نواز کھوکھر، ثمینہ ممتاز زہری، سید مظفر حسین شاہ، سید شبلی فراز اور ولید اقبال نے شرکت کی۔
اجلاس کے دوران حزبِ اختلاف کے اراکین نے ایسے مقدمات سننے کے لیے خصوصی عدالتوں کے قیام کی تجویز پر تحفظات ظاہر کیے، لیکن ان کو اکثریتِ رائے سے مسترد کر دیا گیا۔
ذیلی کمیٹی کے رکن مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ اس قانون کے نفاذ کے بعد قائم ہونے والی خصوصی عدالتیں 4 مہنیوں میں مقدمے کا فیصلہ سنانے کی پابند ہوں گی۔ اگر کوئی ملزم اعلیٰ عدلیہ کا رُخ کرتا ہے تو بھی فیصلہ 6 مہینوں میں سنانا ہوگا۔ اس دوران ملزم کو ضمانت نہیں مل سکتی۔
یہ بل اب منظوری کے لیے سینیٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ریپ کے خلاف نیا قانون کتنا مؤثر ثابت ہوگا؟
قبل ازیں، اجلاس کے دوران رکن قومی اسمبلی ملکہ بخاری نے ریپ کے مقدمات سننے کےلیے خصوصی عدالتوں کے قیام کی تجویز کے بارے میں بتایا۔ اس وقت یہ بھی بتایا گیا کہ یہ عدالتیں ریٹائرڈ ججوں کے بجائے موجودہ ججز پر مشتمل ہوں گی۔
اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رضا ربانی نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ریپ کے مقدمات سننے کے لیے خصوصی عدالتوں کی کوئی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم قانون کے خلاف نہیں ہیں، صرف خصوصی عدالتوں کے قیام کے مخالف ہیں۔
مسلم لیگ ن کے اعظم نذیر تارڑ نے بھی کہا کہ ماضی میں بھی ایسی ہی عدالتیں بنائی گئی تھیں لیکن ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
کچھ ایسے ہی خدشات کا اظہار پیپلز پارٹی کے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے بھی کیا۔ انہوں نے تجویز کیا کہ خصوصی عدالتوں کی نگرانی لازماً پارلیمنٹ کو کرنی چاہیے اور ضرورت پڑنے پر وہ قانون میں تبدیلیاں بھی کر سکتی ہے۔
اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ذیلی کمیٹی نے بل کی منظوری دے دی ہے، جس میں کنوار پن کے ٹیسٹ کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جرم ثابت ہونے پر ملزم کو سزائے موت، عمر قید یا کیمیائی طور پر نامرد بنانے کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سینیٹر نے کہا کہ تحقیقات کے دوران غفلت کا مظاہرہ کرنے یا مقدمے کو غلط رخ پر ڈالنے کی کوشش پر حکام کو بھی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں: صدر پاکستان نے اینٹی-ریپ قانون پر دستخط کر دیے
صدر پاکستان عارف علوی نے گزشتہ سال دسمبر میں خواتین اور بچوں کے خلاف ریپ کے مقدمات پر فوری انصاف اور ایسی حرکت کے مرتکب افراد کو کیمیائی طور پر نامرد بنانے کے لیے ایک اینٹی ریپ آرڈیننس 2020ء کی منظوری دی تھی۔ ایوانِ صدر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ آرڈیننس کے تحت جنسی حملوں کے مقدمات کی فوری سماعت کے لیے ملک بھر میں خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ یہ عدالتیں چار مہینوں کے اندر یہ مقدمات نمٹائیں گی۔
جواب دیں