یہ کرغزستان کے گاؤں آت-باشی میں ہفتے کا دن اور شام 5 بجے کا وقت تھا، جب ایسولو اپنی خالہ کے ہاں سے گھر واپس آ رہی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ "میرے ہاتھ میں ایک تھیلا بھی تھا، جس میں کھانے پینے کی چیزیں تھیں۔ اچانک ایک گاڑی سامنے آ کر رکی، جس میں چار مرد سوار تھے۔ چشمِ زدن میں پچھلے دروازے سے ایک شخص نکلا اور مجھے کھینچتے ہوئے کار کے اندر لے گیا۔ میں بہت چیخی، چلائی، روئی لیکن کچھ نہیں ہوا۔ جس شخص نے مجھے اغوا کیا، چند روز بعد وہ میرا شوہر بن گیا۔”
شادی کے بعد ایسولو کو پتہ چلا کہ شوہر نے اسے اس لیے اغوا نہیں کیا تھا کہ وہ اسے پسند تھی اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتا تھا بلکہ وہ جلد از جلد کوئی دلہن اپنے گھر لے جانا چاہتا تھا اور دن بھر سڑکوں پر تلاش کے بعد اس نے فیصلہ کیا تھا کہ اب جو "پہلی خوبصورت” لڑکی نظر آئی، اسی پر اکتفا کر لوں گا۔
یہ سال 1996ء تھا، اور ایسولو تب نو عمر تھیں، لیکن آج وہ چار بچوں کی ماں ہیں اور اغوا کرنے والا شخص ہی آج بھی ان کا شوہر ہے۔
‘آلاکاچو’ یعنی ‘لے کر بھاگو!’ نامی یہ عجیب و بے ڈھنگی رسم پرانے زمانے سے وسطی ایشیا میں چلی آ رہی ہےاور آج اِس جدید دور میں بھی یہ جاری ہے۔ باوجود اس کے کہ کرغزستان نے دہائیوں پہلے اس پر پابندی لگا دی تھی اور 2013ء میں اس قانون کو مزید سخت بھی کیا، جس کے تحت اب کسی خاتون کو اغوا کر کے اس سے زبردستی شادی کرنے والے کو 10 سال تک کی قید ہو سکتی ہے۔ اس سے پہلے تو اس کی "سزا” صرف 2,000 سوم جرمانہ تھی، یعنی تقریباً 25 ڈالرز۔
یہ بھی پڑھیں: جہیز کی لعنت اور غریبوں پر بڑھتا ہوا بوجھ، ایک المیہ
لیکن نئے قانون کے باوجود یہ رسم رکی نہیں بلکہ قانون کے تحت کسی کو سزا بھی کم ہی دی گئی ہے، البتہ انسانی حقوق کے ادارے ‘Restless Beings’ کا کہنا ہے کہ یہ بھی ایک بڑی پیش رفت ہے، اس سے پہلے تو مال مویشی چوری کرنے کی سزا بھی اس گھناؤنی حرکت سے زیادہ تھی۔
کرغزستان میں ایک کہاوت ہے کہ ایک خوشگوار شادی کا آغاز رونے سے ہوتا ہے اور ‘آلاکاچو’ دلہنوں کے لیے تو اس میں رونے کے ساتھ ساتھ غصہ اور دہشت بھی ملا لیں۔ وسطی ایشیا کے تقریبا ً تمام ہی ملکوں میں یہ گھناؤنی رسم موجود ہے، لیکن سوویت یونین سے آزادی کے بعد کرغزستان کے دیہی علاقوں میں اس کا زور بہت زیادہ تھا۔ سوویت دور میں شاید ہی کبھی کوئی ایسی حرکت کرتا تھا بلکہ اکثر شادیاں والدین ہی طے کرتے تھے لیکن آزادی کے بعد لگتا تھا کہ مردوں کو واقعی کھلی آزادی مل گئی۔
ملک میں صنفی مساوات کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے ویمن سپورٹ سینٹر کے ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں ہر سال کم از کم 12,000 شادیاں دلہنوں کی رضامندی کے بغیر ہوتی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ مرد اپنی مردانگی ظاہر کرنے، معاشقہ پر اپنا وقت ضائع کرنے اور جہیز کی ادائیگی سے بچنے کے لیے کسی عورت کو اغوا کرتا ہے، کیونکہ دلہے کو 4,000 ڈالرز نقد اور مال مویشی کی صورت میں جہیز دینا پڑتا ہے۔
‘آلاکاچو’ کے چند واقعات لڑکا اور لڑکی کی رضامندی سے بھی ہوتے ہیں۔ جب انہیں شادی کرنے کی جلدی ہو تو یہ ‘اغوا بالرضا’ ہوتا ہے۔ اس کے بعد دلہن اپنے ہونے والے شوہر کے گھر لائی جاتی ہیں، جہاں سسرال اس کا خیر مقدم کرتا ہے اور زبردستی اسے ایک چادر پہنانے کی کوشش کرتا ہے۔ سفید رنگ کی یہ چادر دراصل اظہار ہوتی ہے کہ وہ نئے خاندان کے تابع ہو کر رہے گی۔ اس کے بعد شادی کی تقریب ہوتی ہے۔ اغوا ہونے والی 80 فیصد لڑکیاں قسمت کے ہاتھوں خاموش ہو کر شادی کر لیتی ہیں بلکہ بسا اوقات تو انہیں اپنے والدین بھی یہی مشورہ دیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) کے بشکک میں واقع دفتر کے مطابق کرغزستان میں 15 سے 19 سال کی لڑکیوں کے حاملہ ہونے کی شرح خطے میں سب سے زیادہ ہے جبکہ 13 فیصد شادیاں 18 سال سے کم عمر میں ہوتی ہیں، باوجود اس کے کہ قانوناً 18 سال سے کم عمری کی شادیاں غیر قانونی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ہندوتوا کے ہاتھوں حقوقِ نسواں کو درپیش چیلنج
ایک اندازے کے مطابق ہر سال 2,000 خواتین کو اغوا کے بعد ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ شادی پر مجبور ہو جاتی ہیں کیونکہ ریپ ہو جانے کے بعد ان کے لیے اپنے والدین کے گھر جانا غیرت کے تقاضوں کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ ایسی دلہنوں کو تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے بلکہ کچھ واقعات میں ان کا قتل بھی ہوا ہے۔ یہ سب محض اندازے ہیں، در حقیقت ایسے واقعات کہیں زیادہ ہوں گے۔
مثلاً رواں سال اپریل میں 27 سالہ خاتون آئزادہ کناتبیکووا کی لاش ایک کھیت میں پائی گئی، جنہیں دو روز قبل ہی اغوا کیا گیا تھا۔ یہ واقعہ دارالحکومت بشکک کے مرکزی علاقے میں دن دیہاڑے پیش آیا، جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ بھیانک رسم محض دیہی علاقوں تک محدود نہیں۔
جواب دیں