رواں سال اولمپکس کو صنفی مساوات کے لحاظ سے سب سے اعلیٰ مثال قرار دیا جا رہا ہے۔ ابھی ٹوکیو اولمپکس کا باضابطہ آغاز بھی نہیں ہوا تھا کہ سب کی نظریں اس جانب تھیں کہ ان میں تقریباً نصف کھلاڑی خواتین ہوں گی۔ یہ 1896ء میں ایتھنز، یونان سے شروع ہونے والے جدید اولمپکس میں پہلا موقع تھا۔
پھر جیسے ہی کھیلوں کا باضابطہ آغاز ہوا آہستہ آہستہ نئے پہلو اجاگر ہوتے گئے، یہاں تک کہ جرمن جمناسٹکس کھلاڑیوں کے انوکھے "احتجاج” نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی، جن کا کہنا تھا کہ خواتین کو اپنی مرضی کا لباس پہننے کا موقع ملنا چاہیے۔
خواتین کے حقوق کی کارکن اور برطانیہ کی نیشنل یونین آف اسٹوڈنٹس کی سابق صدر مالیہ بو عطیہ ‘الجزیرہ’ کے لیے لکھی گئی اپنی تازہ تحریر میں کہتی ہیں کہ جرمن ٹیم نے عالمی پیمانے پر بڑے توجہ حاصل کی، انہیں روایت شکن ہونے کی وجہ سے بہت سراہا گیا کیونکہ عموماً جمناسٹکس میں کھلاڑی انتہائی مختصر لباس پہن کر شریک ہوتی ہیں گو کہ قانوناً اس کی پابندی نہیں لیکن خواتین کھلاڑیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایسے لباس کے ساتھ کھیلیں جو کئی کھلاڑیوں کو بے آرام اور پریشان کُن لگتا ہے اور یہ بھی لگتا ہے کہ انہیں جنسی لحاظ سے لطف لینے والی چیز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مسلمان خواتین کو حجاب پہننے پر ملازمت سے نکالا جا سکتا ہے، یورپی عدالت کا فیصلہ
مالیہ نے مزید لکھا کہ گو کہ جرمن کھلاڑیوں کا یہ قدم علامتی طور پر بہت اہمیت رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود اس موضوع پر گفتگو اور اس کے اثرات محض کھیلوں کی محدود دنیا تک کی محسوس کیے گئے۔ اس کے بعد رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے اس موضوع پر جو گفتگو ہونی چاہیے تھی، وہ نہیں ہو پائی، جس کی جرمنی کو خاص طور پر بہت ضرورت تھی کیونکہ وہ سالہا سال سے خواتین کو اپنی مرضی کا لباس پہننے کے اختیار کو نشانہ بنا رہا ہے۔
گزشتہ 15 سال سے جرمنی کی مسلمان خواتین مقامی اداروں اور وفاقی ریاست کے ایسے اقدامات کے خلاف جدوجہد کر رہی ہیں، جو طے کر رہے ہیں وہ کیا پہن سکتی ہیں اور کیا نہیں۔ اس طویل جدوجدہ کی جانب جرمن عوام کی توجہ دلانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ خواتین کو حق حاصل ہے کہ وہ جو چاہے پہنیں۔
جرمن مسلمان دہائیوں سے امتیازی سلوک کا سامنا کر رہے ہیں، خاص طور پر خواتین کہ جنہیں دو دہائیوں سے ریاست کے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ 2005ء میں برلن میں ‘برلن نیوٹریلٹی ایکٹ’ منظور کیا گیا، جس کے تحت سرکاری ملازمین اور سرکاری شعبے میں کام کرنے والوں کے لیے مذہبی علامات اور لباس پہننا ممنوع ہو گیا۔ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئیں حجاب پہننے والی مسلمان خواتین۔ جو اُس وقت سے کام کی جگہ پر پردہ کرنے کا حق حاصل کرنے کے لیے قانونی جنگ لڑ رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فرانس، حجاب پہننے پر امیدوار سے پارٹی ٹکٹ واپس لے لیا گیا
پھر 2015ء میں جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت نے فیصلہ دیا کہ مسلمان اساتذہ کے سر ڈھانپنے پر مکمل پابندی لگانا دراصل عقیدے کی آزادی کے خلاف ہے، لیکن اس کے باوجود وفاقی ریاست اس سے ملتے جلتے اقدامات اٹھانے سے باز نہیں آئی۔ آج ملک کی 16 وفاقی ریاستوں میں سے تقریباً نصف ایسی ہیں جو چہرہ اور سر ڈھانپنے پر کسی نہ کسی قسم کی پابندی رکھتی ہیں۔
2017ء میں جرمن پارلیمان نے سرکاری ملازمین پر پابندی لگائی کہ وہ چہرہ ڈھانپنے والا لباس مثلاً نقاب اور برقعہ نہیں پہن سکتیں۔ پھر 2018ء میں مسلمان خواتین کو حجاب پہننے کی وجہ سے برلن کے ایک پرائمری اسکول میں تدریس سے روک دیا گیا اور پھر مقامی عدالت نے بھی اس فیصلے کو برقرار رکھا۔
گزشتہ سال یعنی 2020ء میں وفاقی آئینی عدالت نے زیر تربیت مسلمان وکلا پر پابندی کو برقرار رکھا، محض ‘مذہبی غیر جانبداری کے تحفظ’ کا بہانہ بناتے ہوئے۔ نتیجتاً وہ خواتین جو حجاب پہننا چاہتی ہیں، ریاست یا عدالت میں کسی بھی سطح پر نمائندگی نہیں رکھتیں، یہاں تک کہ تربیت بھی حاصل نہیں کر سکتیں۔
مالیہ بو عطیہ بتاتی ہیں کہ رواں سال مئی میں جرمن پارلیمان کے ایوانِ بالا نے قانون سازی کے ذریعے سرکاری شعبے کے ملازمین کو حجاب سمیت کوئی مذہبی علامت پہننے سے روک دیا۔ اس کے بعد جولائی میں اسے بطور قانون لاگو بھی کر دیا گیا۔ جرمنی کی مسلم کوآرڈی نیشن کونسل (KRM) کے مطابق اس سے حجاب پہننے والی مسلمان خواتین اپنی تمام تر اہلیت اور قابلیت کے باوجود متاثر ہوں گی۔
یہ بھی پڑھیں: اولمپکس مقابلہ حُسن نہیں، خواتین کو اپنی مرضی کے لباس کا حق دیں
جولائی میں جرمن مسلمان خواتین نے ایک اور قانونی شکست کھائی جب یورپی عدالتِ انصاف نے دو مسلمان خواتین کے خلاف فیصلہ دیا جو ایک نجی ادارے کی جانب سے محض حجاب پہننے کی بنیاد پر ملازمت سے نکالی گئی تھیں۔ اسے فیصلے کے بعد کئی حلقوں کو خوف ہے کہ اسلام مخالف رویہ (اسلاموفوبیا) مزید پروان چڑھے گا بلکہ اسے قانونی حیثیت مل جائے گی، اور یہ واضح کرتا ہے کہ یورپ میں مجموعی طور پر مسلمان خواتین کے لیے سیاسی حالات کیا ہیں۔
مسلمان خواتین کو اپنی مرضی کا لباس پہننے کا حق دینے سے انکار ایک طرف اور دوسری جانب جرمن جمناسٹس کے اولمپکس میں اٹھائے گئے قدم کو دیکھا جائے تو یہ موضوع رائے عامہ کا حصہ نہیں بنا۔ مالیہ بو عطیہ کے الفاظ میں صنفی بنیاد پر ڈھائے گئے مظالم کی ہر صورت مخالفت کرنی چاہیے اور یہ حق نہ ریاست کو حاصل ہے اور نہ اولمپک کمیٹی کو طے کرنا چاہیے کہ خواتین کے لیے کون سا لباس درست اور کون سا نہیں، چاہے کام کی جگہ ہو، کھیل یا تفریح کے مواقع۔
خواتین پر مظالم کے خلاف ایسی مختلف کوششوں کو باہم منسلک کرنے میں ہچکچاہٹ ہی دراصل ریاستوں اور بین الاقوامی اداروں کو خواتین کے حقوق کے معاملے پر پردہ ڈالنے کا موقع دیتی ہے۔ مثلاً اولمپک کمیٹی کی تمام تر توجہ خواتین شرکا کی تعداد پر جبکہ گیمز کے دوران خواتین کو جو مسائل درپیش آئے، ان سے نمٹنے میں وہ ناکام رہی، مثلاً جنسی بد اخلاقی کے واقعات سے لے کر دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے سہولیات کی عدم دستیابی تک۔
یہ بھی پڑھیں: اولمپکس، ہیجان خیز لباس کے خلاف جرمن کھلاڑیوں کا انوکھا احتجاج
جرمنی میں مسلمان خواتین اپنے حقوق کے دفاع کے لیے متحرک ہیں۔ اس لیے جرمن جمناسٹس یا کوئی بھی شخص یا گروہ جو صنفی بنیاد پر جرمنی میں ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف سینہ سپر ہوتا ہے، اسے مسلمانوں کی صورت میں با آسانی چند ساتھی میسر آ سکتے ہیں جو ایسی جدوجہد کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ کوالیشن فار مسلم ویمن اور جرمنی کی مسلم کوآرڈی نیشن کونسل جیسی قومی انجمنیں عرصے سے جدوجہد کر رہی ہیں۔
جرمنی میں تقریباً 55 لاکھ مسلمان بستے ہیں۔ مسلمان خواتین کے حقوق کو نظر انداز کرتے ہوئے صنفی مساوات کی کوئی بھی مہم نامکمل ہوگی۔ فرانس سے لے کر اولمپکس تک، جمناسٹکس کے مختصر لباس سے لے کر حجاب تک اور کھیل کے میدانوں سے کام کے مقامات تک، خواتین کے لیے یہ ایک سچا نعرہ بن رہا ہے: ہمارا جسم، ہماری مرضی۔
جواب دیں