پاکستان میں بیچی گئی خاتون 38 سال بعد اپنی ماں سے ملنے بنگلہ دیش روانہ

زاہدہ کو 23 سال کی عمر میں بنگلہ دیش سے اغوا کر کے پاکستان کے ضلع دادو میں فروخت کر دیا گیا تھا

زاہدہ 23 سال کی تھیں جب 1983ء میں انہیں جنوب مغربی بنگلہ دیش میں اپنے گاؤں سے اغوا کیا گیا اور بعد ازاں پاکستان لا کر بیچ دیا گیا۔ اب وہ 61 سال کی ہیں اور ان کا نام رقیہ بیگم ہے۔ آج تک وہ بنگلہ دیش کے ضلع جھینائیدا میں اپنے خاندان سے ملنے کا صرف خواب ہی دیکھتی تھیں اور انہیں کوئی امید نہیں تھی کہ ایسا کبھی حقیقت میں ہو پائے گا۔ لیکن اب تقریباً چار دہائیوں کے بعد اُن کا یہ خواب حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ آج ہفتہ 28 اگست کو رقیہ بیگم امارات ایئر لائنز کی ایک پرواز کے ذریعے ڈھاکا روانہ ہو چکی ہیں جہاں وہ چند ماہ اپنے خاندان کے ساتھ رہیں گی۔

کراچی کے علاقے منگھوپیر کے ایک نجی اسکول میں کام کرنے والی رقیہ کا اپنے خاندان سے رابطہ اکتوبر 2018ء میں ہوا تھا۔ "گھر والوں نے بتایا کہ میرے والد ہر عید پر میرا جوڑا خریدتے تھے۔ گھر والے کہتے تھے کہ میرا کچھ نہیں پتہ، ہو سکتا ہے میں مر چکی ہوں۔ لیکن وہ کہتے تھے کہ میرا دل کہتا ہے وہ زندہ ہے۔

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ رقیہ کا اپنی ماں اور خاندان سے رابطہ ہونے سے پہلے ہی والد کا انتقال ہو چکا تھا۔

انسانی اسمگلنگ، کووِڈ-19 کی وجہ مزید بچے اور خواتین زد پر

پاکستان جبری مشقت کے لیے مردوں، عورتوں اور بچوں کی اسمگلنگ کا گڑھ رہا ہے، خاص طور پر افغانستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے۔ بنگلہ دیش سے پاکستان اسمگل کی گئی خواتین کے حوالے سے تازہ ترین اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن ایکشن ایڈ پاکستان کی ایک اپریل 2000ء کی رپورٹ کہتی ہے کہ 1990ء سے 1999ء کے دوران 12 سے 30 سال کی عمر کی 2 لاکھ بنگلہ دیشی خواتین اور لڑکیاں پاکستان لائی گئیں۔

لائرز فار ہیومن رائٹس اینڈ لیگل ایڈ (LHRLA) کے صدر ضیاء اعوان کہتے ہیں کہ یہ یہ تعداد اب کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ اب بھی ہزاروں بنگلہ دیشی اور برمی خواتین اور لڑکیاں پاکستان اسمگل کی جاتی ہیں۔

زیادہ تر انتہائی دُور دراز دیہات سے تعلق رکھنے والی بہت غریب خواتین ہوتی ہیں اور انہیں یا تو شادی کے خواہش مندوں کو بیچا جاتا ہے یا عصمت فروشی کروائی جاتی ہے۔

ایسی زیادہ تر خواتین کبھی اپنے گھر والوں کا منہ تک نہیں دیکھ پاتیں، لیکن رقیہ بیگم خوش قسمت تھیں۔

ولی اللہ معروف ایک مدرسے میں استاد ہیں، جن کے گھر والے رقیہ بیگم کو جانتے ہیں۔ انہیں اپنی والدہ سے رقیہ بیگم کی داستان کا پتہ چلا۔ معروف بتاتے ہیں کہ ہمارے محلے میں رقیہ بیگم نانی کے طور پر مشہور ہیں۔ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وقت گزاری کی وجہ سے میری والدہ نے مجھے کہا کہ اس وقت کو کسی ڈھنگ کے کام میں لاؤں اور رقیہ بیگم کو اپنے خاندان سے ملوانے کی کوشش کروں۔ تب میں نے ان کے بارے میں ایک پوسٹ لکھی، جو بہت پھیلی اور بالآخر ہمارا بنگلہ دیش میں ان کے خاندان سے رابطہ ہو گیا۔

چین میں کام کرنے والے ایک اور پاکستانی محمد حسیب اللہ راجا نے بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا۔ کہتے ہیں کہ "میرا بنگلہ دیشی دوستوں کا بہت بڑا نیٹ ورک ہے اور ہمیں مقامی رابطوں کے ذریعے رقیہ بیگم کے خاندان تک پہنچنے میں دو ہفتے لگے۔”

معروف کا کہنا تھا کہ جب وڈیو کال پر پہلی بار رقیہ بیگم کا اپنے خاندان سے رابطہ ہوا تو بہت جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔

رقیہ بیگم اپنی داستان سناتی ہیں کہ ایک بوڑھی عورت نے بازار جانے کا لالچ دیا تو میں اس کے ساتھ چل پڑی۔ بعد میں مجھے کوئی نشہ آور چیز کھلائی گئی۔ جب ہوش آیا تو میں کسی اور جگہ پر تھی، جہاں موجود ایک شخص نے بتایا کہ اس نے مجھے خرید لیا ہے۔

بعد ازاں، رقیہ بیگم کو پاکستان کے صوبہ سندھ کے دیہی علاقے میں ایک ایسے شخص کو فروخت کر دیا گیا، جو اپنے چچا کے لیے دلہن تلاش کر رہا تھا۔ رقیہ بتاتی ہیں کہ مجھے ضلع دادو کے رسول گوٹھ لے جایا گیا، جہاں ایک بوڑھے سے میری شادی کروا دی گئی۔ اس سے میرے دو بچے ہوئے۔ ایک بیٹا جو نشے کا عادی ہو گیا اور 2014ء میں مر گیا اور ایک بیٹی ہے جس کی شادی ایک معذور شخص سے ہوئی۔

رقیہ بیگم کہتی ہیں کہ

زندگی میں کوئی رمق نہیں تھی، جب تک کہ اپنے خاندان سے رابطہ نہیں ہوا۔ مجھے خوشی ہے کہ اب میں تین مہینے بنگلہ دیش میں اپنی ماں اور رشتہ داروں کے ساتھ گزاروں گی۔ لیکن اپنی بیٹی اور پڑوسیوں کے پاس پاکستان واپس آنا ہی ہوگا، میں انہیں بھی اپنا خاندان سمجھتی ہوں۔ اب میں ایک پاکستانی ہوں، میری ایک بیٹی ہے اور اس کا شوہر معذور ہے، اس لیے مجھے واپس آنا ہوگا۔

رقیہ کی والدہ رضیہ بیگم نے فیس بک پر ایک وڈیو پیغام میں اپیل کی تھی کہ ان کی بیٹی کو بنگلہ دیش لانے کے لیے انتظامات کیے جائیں۔ "میں زاہدہ کی ماں ہوں۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد زاہدہ ہم سے بچھڑ گئی۔ ہم نے اسے بہت تلاش کیا لیکن وہ نہیں ملی۔ میں اب بہت بیمار ہوں، میری خواہش ہے کہ میں اپنی بیٹی کو ایک بار دیکھوں۔ اگر آپ ہماری مدد کریں گے تو میں اسے دیکھ پاؤں گی۔”

معروف اور ان کے ساتھیوں نے رقیہ بیگم کی بنگلہ دیش روانگی کے لیے مالی امداد اکٹھی کی اور بالآخر یہ کام مکمل ہوا۔ رقیہ بتاتی ہیں کہ جب والدہ کو پتہ چلا کہ میں جہاز کا ٹکٹ لے چکی ہوں تو وہ خوشی سے رو پڑیں۔ میں بہت خوش ہوں کہ میں ایک مرتبہ پھر ماں سے ملوں گی۔ انہوں نے کہا تھا کہ میرے لیے کچھ مت لانا لیکن میں نے اُن کے لیے نیا جوڑا لیا ہے کیونکہ بہت عرصے بعد اُن سے مل رہی ہوں۔ ہم بہت باتیں کریں گے اور خوشی کے دنوں کو یاد کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے