"کچھ علاج اس کا بھی”۔۔۔آمنہ خرم

خواتین کا استحصال یا ان کے خلاف جنسی، جذباتی، معاشرتی جرائم ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ سب چیزوں کو ایک ساتھ مت لپیٹیں۔ بات کرتے ہوئے سوچ لیا کریں کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ جو خواتین ان مسائل کا شکار ہیں، آپ ان کے لیے پریشانیوں میں اضافہ کردیتے ہیں۔

میں نے فیس بک پہ ایک خواتین کے گروپ میں شرکت کررکھی ہے، جس میں خواتین اپنے مسائل زیر بحث لاتی ہیں۔ اس میں ایک خاتون نے لکھا کہ اسے شادی شدہ ہوئے چند ماہ ہوئے ہیں۔ اور اس نے ایک پل بھی سکون سے نہیں گزارہ۔ شادی کے کچھ ہی دن بعد سے شوہر نے اس کے منہ پر برملا کہا کہ تم اس قابل ہی نہیں کہ تم سے محبت کی جائے۔ بس ماں کی وجہ سے شادی کرلی۔ اور چاہے تو طلاق لے لو۔ بلکہ چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں پر اسے طلاق کی دھمکی کئی بار لگا چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مردہ بیٹی یا طلاق یافتہ بیٹی؟

وہ لڑکی شدید ڈپریشن میں تھی۔ اس پر ذہنی تشدد کیا جارہا تھا اور وہ درخواست کررہی تھی کہ مجھے کوئی وظیفہ بتائیں کہ میرا شوہر مجھ سے محبت کرنے لگے۔ کیونکہ اگر طلاق ہوگئی تو گھروالے یہ برداشت نہیں کرسکیں گے۔

ایک اور خاتون نے روتے ہوئے اسی گروپ میں پوسٹ کیا ہوا تھا کہ اس کے شوہر نے اولاد نہ ہونے پر اسے شادی کے دس سال بعد گھر سے نکال دیا ہے۔ اور خود دوسری شادی کررہاہے۔ والدین کی وفات ہوچکی ہے۔ اس کے ماں باپ کا گھر بیچ کر بھائی بیرون ملک چلاگیا ہے اور وہیں شادی کرلی ہے۔ اور اس سے کوئی رابطہ بھی نہیں ہے۔ شوہر کے گھر سے وہ خالہ کے گھر آ تو گئی ہے مگر اسے نہیں معلوم کہ اب کدھر جائے، کیا کرے ؟اور کہہ رہی تھی کہ دعا کریں میرا شوہر مجھے واپس اپنے گھر میں رکھ لے۔

یہ بھی پڑھیں: "نورمقدم نہیں گڑیا کا سر ہے”

دل بہت بوجھل ہوا، خیر اس پوسٹ کو پڑھ کر آگے بڑھی تو ایک دوست نے اپنی وال سے پوسٹ لگائی ہوئی تھی کہ مدرسے کے معلم نے 16 سالہ طالبہ کو زیادتی کا نشانہ بناڈالا۔ آگے سکرول کیا تو نورمقدم کیس سے متعلق نئے انکشافات اور تفصیلات درج تھیں۔ اسی پوسٹ کے نیچے ایک مشہور اداکارہ کی پوسٹ تھی۔ میرا جسم، میری مرضی کے حق میں بولنے پر نیچے کمنٹس میں لوگوں نے اس کو خوب آڑے ہاتھوں لیا ہوا تھا۔

کم وبیش اسی قسم کی خبریں مسلسل ہمارے فیس بک وال کا حصہ بنی ہوئیں ہیں۔ اور اب چند دن سے تو عائشہ اکرم ہے، مینار پاکستان ہے، ذلت ہے، رسوائی ہے۔ اس ٹک ٹاکر کا شجرہ نسب تو ماشااللہ ہر پاکستانی نے ایسا کھنگالا ہے کہ ہم سب کو ہر معلومات ازبر ہوچکی ہے۔ ایک طوفان تھا غیرسنجیدہ رویوں کا جس میں سب نے بھرپور حصہ لیا۔ خوب گالی گلوچ، کردار کشی کی گئی۔ ویڈیوز شیئر کرکے مذاق بنایا گیا۔ اگرکسی نے اس کے حق کے لیے آواز اٹھائی تو اس پر میمز بنائی گئیں۔ اور ان کے کردار بھی خوب اچھالے گئے۔

کیا سچ تھا کیا جھوٹ، ادارے اپنا کام کررہے ہیں۔ اور وقت کے ساتھ واضح ہورہا ہے اور مزید ہوجائے گا۔ مگر کیا یہ مذاق اڑانے اور میمز بنانے کا وقت ہے؟ ہم ہر معاملے کو اتنی غیرسنجیدگی سے کیوں لیتے ہیں؟ بغیر سوچے سمجھے، تحقیق کیے بغیر ہر شخص اپنی رائے دینے لگتا ہے۔ اور آخر میں ایسا لگنے لگتا ہےکہ کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں بس خواتین ایسے ہی واویلا کرتی ہیں۔

خدارا معاملے کی نزاکت کو سمجھیے۔ خواتین کا استحصال یا ان کے خلاف جنسی، جذباتی، معاشرتی جرائم ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ سب چیزوں کو ایک ساتھ مت لپیٹیں۔ بات کرتے ہوئے سوچ لیا کریں کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ جو خواتین ان مسائل کا شکار ہیں، آپ ان کے لیے پریشانیوں میں اضافہ کردیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ مینار پاکستان

جن خواتین کا میں نے اوپر ذکر کیا، آدھے سے زیادہ کمنٹس میں لوگ انہی کی اصلاح کررہے تھے کہ صبر کرو، برداشت کرو، اپنے آپ کو ایسا بنالو، ویسا بنالو۔ مدرسے کے معلم کی خبر کے نیچے کسی بہت سمجھدار انسان کا کمنٹ تھا کہ خبر مدرسے کی تھی اسی لیے دے دی، کسی یونیورسٹی کی ہوتی تو دبا لی جاتی۔ ریپ کیسز بھی بے تحاشا بڑھ رہے ہیں لیکن ان میں کم وبیش خواتین کو مورد الزام ٹھہراہ دیا جاتا ہے کہ اکیلی کیوں گئی؟ ایسا لباس، ویسا لباس وغیرہ۔ نورمقدم اور عائشہ اکرم کے کردار پر انگلی اٹھا کر انہیں ہمدردی کی فہرست سے خارج کردیا گیا۔ اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ ہمارے رویے ایسے غیرسنجیدہ ہیں تو اسی لیے اتنی لاقانونیت ہے۔

اس بات سے قطعاً انکار نہیں کہ مرد معاشرے کی ایک اہم اکائی ہے۔ ستون ہیں، بنیاد ہیں، نگہبان ہیں، سائبان ہیں۔ اور یہ کہ سب مرد ایک جیسے نہیں لیکن جن حضرات کے ہاتھوں تنگ خواتین کا میں نے اوپر ذکر کیا وہ بھی ‘مرد’ ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مسائل بدرجہ اتم ہیں اور ان سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ نہ کسی ایک واقعہ سے سب اچھے ہوجاتے ہیں اور نہ ہی برے۔

خدارا، انا کا مسئلہ مت بنائیے۔ بحیثیت انسان ہم سب کو اصلاح کی ضرورت ہے۔ پھر چاہے مرد ہو یا عورت۔ خواتین کو اپنی عزت و توقیر کا خیال رکھنا ضروری ہے تو مرد کو بھی اسے عزت دینا سیکھنا ہوگا۔ بحیثیت والدین اپنے بچوں کی تربیت کیجیئے۔ ان کے ہاتھ میں موبائل فون دیتے ہوئے کچھ معاشرتی اصول ضرور سکھائیے۔ کچھ حدود بیان کیجئے۔ گھر اور گھر سے باہر آپس میں میل جول کے ضابطے سکھائیے۔ گفتگو کا معیار بہتر کرنے کے لیے مشورے دیجئے۔ انہیں سوشل میڈیا کے استعمال کی اجازت بھی تب دیں جب آپ کو لگے کہ ان کی تربیت ہوگئی۔ ورنہ ان کے لکھے چند جملے کسی بھی فورم پہ آپ کی تربیت کی قلعی کھول دیں گے۔

خواتین سے بھی درخواست ہے کہ اپنا مقام و مرتبہ مت بھولیں۔ ورنہ چاہے آپ کسی بھی مسئلے کا شکار ہوجائیں، آپ کا کردار سب سے پہلے کھنگالا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: معافی مانگیئے؛ معذرت ضروری ہے ۔۔۔ آمنہ خرم

‘ہمارے ہاں ایسا کچھ ہوتا ہی نہیں یا سارے کا سارا معاشرہ ٹھیک ہے’، یہ کہنا درست نہیں۔ قوانین بن جانے دیں، قوانین ہیں بھی تو ان کی پابندی نہیں۔ محفوظ معاشرہ ہم سب کی ضرورت ہے۔ عورت/مرد کی جنگ میں مسائل جوں کے توں رہ جاتے ہیں۔ براہِ کرم جن زخموں کا ادراک ہوجائے ان کا تدارک بھی ہوجانے دیں۔ ورنہ یہ زخم ناسور بن جاتے ہیں۔ اگرچہ تاخیر ہوچکی مگر مجھے یقین ہے کہ مرہم زخم کو جلد مندمل کردے گا۔

2 Pings & Trackbacks

  1. Pingback: بنت آدم و حوا ۔۔۔ آمنہ خرم - دی بلائنڈ سائڈ

  2. Pingback: ایک معمہ ہے سمجھنے کا۔۔۔آمنہ خرم - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے