افغانستان میں طالبان نے برسرِ روزگار اور کام کرنے والی خواتین کو تب تک گھروں پر رہنے کی ہدایت کی ہے جب تک کہ امن و امان قائم نہیں ہو جاتا۔
کابل میں پریس کانفرنس کے دوران طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے صحافیوں کو یقین دلایا کہ خواتین کے کام کرنے پر پابندی مختصر مدت کے لیے ہوگی۔
لیکن اِن یقین دہانیوں کے باوجود خدشہ ہے کہ خواتین کو سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا، جیسا 1996ء سے 2001ء تک ملک میں طالبان کے گزشتہ دورِ حکومت میں تھا۔
افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا اور اس کی پٹھو حکومت کے خاتمے کے بعد طالبان ملک کی باگ ڈور سنبھال چکے ہیں اور اب ملک بھر کی خواتین تشویش میں مبتلا ہیں کہ اُن کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیونکہ جب آخری بار طالبان نے اقتدار سنبھالا تھا تو انہوں نے خواتین کے لیے پردہ لازمی قرار دیا تھا اور انہیں کام کرنے اور تعلیمی اداروں میں جانے کی اجازت نہیں تھی یہاں تک کہ وہ محرم کے بغیر گھر سے نکل بھی نہیں سکتی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں بے امنی، خواتین اور بچوں کی اموات میں اضافہ
لیکن اب طالبان کا کہنا ہے کہ کام کرنے والی خواتین پر پابندیاں تب تک کے لیے ہیں، جب تک اُن کے تحفظ کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔ ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ دراصل تمام طالبان اہلکاروں کو خواتین کے ساتھ بات کرنے کی تربیت حاصل نہیں۔ اس لیے جب تک مکمل امن و امان نہ ہو جائے، ہم یہی کہیں گے کہ خواتین کے لیے گھر پر رہنا بہتر ہے۔
افغانستان پر گرفت کرنے کے بعد طالبان اب خود کو ایک معتدل مزاج قوت کے طور پر پیش کر رہے ہیں، یہاں تک کہ انہوں نے امریکا اور سابق حکومت کے ساتھ کام کرنے والوں کے لیے بھی عام معافی کا اعلان کیا ہے اور ذرائع ابلاغ سے بھی وعدہ کیا ہے کہ انہیں کام کرنے کی کھلی آزادی ہوگی۔
جواب دیں