عنبرین رحمٰن اپنے آبائی شہر مظفر آباد جانا چاہتی ہیں، لیکن وہ آٹھ سال سے مقبوضہ کشمیر کے علاقے کپواڑہ میں پھنسی ہوئی ہیں اور اب انہیں کوئی امید نہیں کہ وہ کبھی اپنے گھر جا بھی پائیں گی۔
کشمیر دہائیوں سے تقسیم ہے، ایک طرف آزاد کشمیر ہے اور دوسری جانب بھارت کے شکنجے میں موجود مقبوضہ کشمیر اور دونوں کے درمیان لائن آف کنٹرول ہے جو دونوں حصوں کو الگ کرتی ہے۔
کپواڑہ میں اپنے گھر کی کھڑکی کھول کر عنبرین ان پہاڑوں کی طرف دیکھتی ہیں، جن پر چنار کے درخت ہیں۔ "ان سے پرے میرا دل ہے۔ میں ایک قیدی پرندے کی طرح ہوں جو اپنے پنجرے میں ہی پھڑپھڑاتا رہتا ہے اور ان فضاؤں میں دوبارہ سے اڑنے کے لیے بے تاب ہے۔”
عنبرین کے مصائب کا آغاز 2013ء میں ہوا جب انہوں نے اپنے شوہر عبد المجید آہن گر اور تین بچوں کے ساتھ مقبوضہ کشمیر آنے کا فیصلہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی خواتین جو مقبوضہ کشمیر جا کر پھنس گئیں
عبد المجید ان سینکڑوں کشمیریوں میں شامل تھے کہ جنہوں نے 1990ء کی دہائی میں بھارت کے مظالم سے تنگ آ کر جہاد کا علم اٹھایا تھا اور اس کے لیے لائن آف کنٹرول پار کر کے آزاد کشمیر آئے تھے۔
کشمیر کی مسلح جدوجہد کا آغاز 1989ء میں ہوا تھا جس کا مقصد کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا تھا۔ عبد المجید نے 1999ء میں لائن آف کنٹرول پار کی تھی لیکن بعد میں مظفر آباد میں رشتہ داروں کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔ وہ درزی کا کام کرتے تھے۔ 2002ء میں ان کی عنبرین کے ساتھ شادی ہو گئی۔
عبد المجید مقبوضہ کشمیر میں اپنے گھر جانا چاہتے تھے اور یہ موقع انہیں 2010ء میں ملا جب بھارتی حکومت نے ان تمام سابق مجاہدین کے لیے معافی کا اعلان کیا جو لائن آف کنٹرول پار کر کے آزاد کشمیر گئے تھے لیکن اب مسلح جدوجہد ترک کر چکے ہیں اور واپسی کے خواہش مند ہیں۔
اس فیصلے کے تحت یکم جنوری 1989ء سے 31 دسمبر 2009ء کے دوران آزاد کشمیر جانے والے مجاہدین واپس آنے کے اہل تھے۔ ان تمام سابق مجاہدین کو صرف لاہور کے راستے واہگہ-اٹاری سرحد، لائن آف کنٹرول پر واقع سلام آباد اور چکاں دا باغ یا دارالحکومت نئی دہلی کے ہوائی اڈے کے ذریعے آنے کی اجازت تھی۔ لیکن زیادہ تر واپس آنے والوں نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا کیونکہ انہیں خوف تھا کہ بھارت واپسی پر انہیں گرفتار کر لیا جائے گا اور وہ سکیورٹی اداروں کی نظروں میں آ جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: وادئ کشمیر، خواتین پر بدترین مظالم اور اجتماعی خاموشی
2017ء میں بھارتی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ سات سال کے عرصے میں کم از کم 377 سابق مجاہدین اور ان کے خاندان کے 864 اراکین بذریعہ نیپال یا بنگلہ دیش واپس آئے۔ لیکن حکومت کا کہنا تھا کیونکہ کوئی منظور شدہ راستوں سے نہیں آیا، اس لیے وہ اس پالیسی کے تحت فائدے سمیٹنے کے لیے اہل نہیں۔
مقبوضہ کشمیر گھر واپس آتے ہوئےعبد المجید نے عنبرین کو یقین دلایا تھا کہ وہ چند مہینوں میں مظفر آباد واپس آ جائیں گے۔ پانچ افراد پر مشتمل اس خاندان نے اسلام آباد سے کاٹھمنڈو کی پرواز پکڑی اور پھر وہاں سے بھارت میں داخل ہوئے اور مختلف بسوں اور ریل گاڑیوں کے ذریعے کپواڑہ پہنچے۔
لیکن جیسے ہی وہ گھر پہنچے، عبد المجید کے اہل خانہ نے ان کی سفری دستاویزات پھاڑ دی کہ جن میں پاکستانی پاسپورٹس بھی شامل تھے۔
عنبرین کہتی ہیں کہ آٹھ سال گزر چکے ہیں اور مجھے امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔
2019ء میں والد کے انتقال پر بھی وہ مظفر آباد نہیں آ سکی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: آج کشمیری خواتین کا یومِ مزاحمت، ایک بھیانک دن کی یادیں
آج وہ مقبوضہ کشمیر آنے کے فیصلے پر پچھتاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ لگتا ہے کہ میرے ساتھ بڑا دھوکا ہوا۔ "میرے پاس پاسپورٹ نہیں۔ میرا پاکستانی پاسپورٹ یہاں آنے کے بعد میرے شوہر نے پھاڑ دیا تھا۔ میں بھارتی پاسپورٹ لے نہیں سکتی کیونکہ میرے پاس بھارتی شہریت نہیں ہے۔”
اب بچوں کا مستقبل بھی انہیں پریشان کرتا ہے۔ "اس بات کی کوئی ضمانت ہے کہ میرے شوہر کا ماضی میرے بچوں پر اثر انداز نہیں ہوگا؟ اگر مستقبل میں وہ بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنا چاہیں یا کام کرنے کے لیے باہر جانا چاہیں تو کیا انہیں اجازت ملے گی؟” انہوں نے سوال کیا۔ “میرے شوہر کو آج بھی سابق عسکریت پسند کہتے ہیں اور مجھے پاکستانی کہا جاتا ہے۔”
عنبرین نے سوال اٹھایا کہ پاکستانی خواتین سے شادیاں کرنے والے کشمیری سیاست دانوں کو تو کھلی اجازت ہے، ہمیں کیوں نہیں؟ ہمیں کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟
ان کا اشارہ سجاد لون کی طرف تھا جو ایک علیحدگی پسند تھے اور بعد ازاں بھارت نواز سیاست دان بن گئے۔
عنبرین ان 370 خواتین میں سے ایک ہیں جن کا تعلق آزاد کشمیر اور پاکستان کے دیگر علاقوں سے ہے اور وہ ان کی طرح مقبوضہ کشمیر میں پھنسی ہوئی ہیں۔
ان خواتین کا مطالبہ ہے کہ انہیں پاکستان واپس بھیجا جائے یا پھر بھارتی پاسپورٹ جاری کیا جائے جس کی بنیاد پر وہ اپنے آبائی وطن جا سکیں اور اپنے پیاروں سے مل سکیں۔
رواں ماہ کے اوائل میں درجنوں ایسی خواتین اور اُن کے بچوں نے ضلع بارہ مولا کے علاقے اُڑی سے لائن آف کنٹرول کی طرف پیش قدمی کی تھی، جس پر انہیں کچھ دیر کے لیے گرفتار بھی کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں پھنسی پاکستانی خواتین کا لائن آف کنٹرول کی طرف مارچ
انہی خواتین میں سے ایک 31 سالہ بشریٰ فاروق ہیں، جنہوں نے 2008ء میں سابق مجاہد آفاق احمد بھٹ سے شادی کی تھی۔ دو سال پہلے دونوں کے درمیان طلاق ہو گئی اور بشریٰ اب بھی آزاد کشمیر کے ضلع باغ واپسی کے بجائے کپواڑہ میں کرائے کے ایک مکان میں رہنے پر مجبور ہیں۔
عبد المجید کی طرح آفاق بھی 90ء کی دہائی میں لائن آف کنٹرول پار کر کے آزاد کشمیر آ گئے تھے لیکن بعد میں انہوں نے معمول کی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں تک کہ 2012ء میں حکومت کے اعلان کے بعد وہ بھی بذریعہ نیپال مقبوضہ کشمیر واپس آ گئے۔
بشریٰ سمجھتی ہیں کہ اس اعلان نے ان جیسی سینکڑوں خواتین کی زندگیاں برباد کی ہیں۔ "حکومت نے مردوں کو تو واپس بلا لیا لیکن ان کی بیویوں اور بچوں کے بارے میں کچھ نہیں سوچا اور نہ کچھ کیا۔” بشریٰ کے مطابق سالہا سال تک اپنے گھر والوں سے نہ ملنے کی وجہ سے اُن کے تعلقات میں بد مزگی پیدا ہوئی جو بالآخر 2019ء میں طلاق پر منتج ہوئی۔ "اب میں نہیں جانتیں کہ کبھی اپنے اصل وطن واپس بھی جا پاؤں گی یا نہیں۔ ہر رات سونے سے پہلے میں اپنے گھر، اپنے خاندان اور وہاں کی زندگی کے بارے میں سوچتی ہیں۔ ایک ایسی صبح کا خواب دیکھتی ہوں کہ جس میں میں خود کو باغ میں اپنے گھر پر پاتی ہوں۔ یہاں میں بہت نا امید اور مایوس ہوں۔”
جواب دیں