افغان دارالحکومت کابل پر قبضہ جمانے کے بعد پہلی پریس کانفرنس کے دوران طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد خواتین کو یقین دہانیاں کرتے ہوئے نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ "ہماری بہنوں اور مرد یکساں حقوق رکھتے ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ مل کر کام کریں گی، شانہ بشانہ۔”
لیکن طالبان کی اِن باتوں پر یقین کرنے کے بجائے کابل کی بیشتر خواتین کارکن اور صحافی ملک سے فرار کو ترجیح دے رہی ہیں، گو کہ ایسا کرنا بہت مشکل ہے اور اس عمل میں کئی خطرات بھی لاحق ہیں، لیکن وہ انہیں مول لینے کو تیار ہیں۔
انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ کی عبوری شریک ڈائریکٹر برائے شعبہ حقوقِ نسواں ہیدر بار نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں کہا ہے کہ بیرونِ ملک روانگی سے پہلے اس وقت کئی خواتین چھپی ہوئی اور خوفزدہ ہیں۔ کئی کارکنوں کو خوف ہے کہ خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی وجہ سے ان کی جانوں کو خطرہ ہے کیونکہ وہ جج، پولیس افسر، فوجی اور اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہی ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب یہ خواتین ملک سے فرار کو ترجیح دے رہی ہیں، طالبان ایک دوسری ہی مہم پر کام کر رہے ہیں۔ غیر معمولی رفتار سے ملک پر قبضہ کرنے کے بعد اب وہ دنیا کو قائل کرنے کی کوشش میں ہیں کہ وہ ایک سیاست دان ہیں اور اقوامِ عالم کا ایک ذمہ دار رکن بننے کے لیے تیار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں بے امنی، خواتین اور بچوں کی اموات میں اضافہ
لیکن اس کے لیے مشترکہ پریس کانفرنس اور خواتین صحافیوں کو انٹرویو دینے سے آگے بڑھ کر مزید کچھ کر دکھانے کی ضرورت ہے، خاص طور پر افغان خواتین کو قائل کرنے کی کہ جن کی جانیں اور مستقبل اب رحم و کرم پر ہے۔
ہیدر بار نے کہا کہ افغان خواتین طالبان کی تاریخ کو اچھی طرح جانتی ہیں۔ جب وہ آخری بار 1996ء سے 2001ء کے دوران برسرِاقتدار تھے تو انہوں نے خواتین اور لڑکیوں کے بیشتر تعلیمی ادارے بند کر دیے تھے اور انہیں کسی محرم کے بغیر گھر سے نکلنے تک کی اجازت نہیں تھی۔ جس کی وجہ سے وہ نہ صرف روزگار کے مواقع سے محروم رہیں بلکہ چہل قدمی تک کرنے کے لیے بغیر مرد کے گھر سے باہر نہیں نکل سکتی تھیں۔
ایک ایسی نیوز کانفرنس میں بھی کہ جس کا مقصد خواتین کو یقین دہانی کروانا تھا، ذبیح اللہ مجاہد کہہ گئے کہ "خواتین کے خلاف کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا، لیکن ان حدود کے اندر کہ جو ہم رکھتے ہیں۔ ہماری خواتین مسلمان ہیں۔ وہ بھی شریعت کی طے کی گئی حدود کے اندر رہنا پسند کریں گی۔”
اپنے گزشتہ دورِ حکومت میں طالبان نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ خواتین کو "اسلامی دائرے کے اندر” حقوق دے رہے ہیں اور ان کی لگائی گئی پابندیاں دراصل امن و امان کی خراب صورت حال کا نتیجہ ہیں۔ ابھی تک تو انہوں نے وضاحت نہیں کی کہ ان کے اس طرزِ عمل میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں لیکن اُن کے عملی اقدامات ان کے بیانات سے کہیں زیادہ سخت ضرور ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کا انخلا اور افغان خواتین کو لاحق خطرات
حالیہ چند ہفتوں کے دوران طالبان نے جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے، ان میں سے چند اضلاع میں خواتین اور لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگائی گئی ہے، خواتین کو ملازمتوں سے نکالا گیا ہے اور انہیں کہا جا رہا ہے کہ وہ کسی محرم کے بغیر باہر نہ نکلیں اور یہ تمام واقعات 2001ء سے پہلے کے دور کی یاد دلاتے ہیں۔
اگر طالبان اپنے تمام تر معتدل بیانات پر پورا بھی اتریں تو بین الاقوامی انسانی حقوق کے تحت عائد ذمہ داریاں پوری نہیں کر پائیں گے۔ افغانستان ان معاہدوں پر عمل درآمد کا پابند ہے جو اس نے اقوامِ عالم کے ساتھ کر رکھے ہیں جن میں اقوام متحدہ کا حقوقِ نسواں کا معاہدہ بھی شامل ہے۔
یہ تمام حکومتوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ برابر کی بنیاد پر خواتین کے انسانی حقوق اور بنیادی آزادی کو یقینی بنائے۔ بین الاقوامی قوانین خواتین کو اپنی مرضی کا لباس پہننے، جہاں چاہے رہنے، آزادانہ نقل و حرکت کرنے، کسی بھی شعبے میں کام کرنے، تشدد سے پاک زندگی گزارنے اور تولیدی حقوق سے نوازتے ہیں۔
ان تمام حقوق کو ادا کرنے کی طالبان سے توقع رکھنا بہت مشکل ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ خطرہ بھی ہے کہ طالبان کی عسکری فتوحات کے سامنے شکست کھانے والے اور اسی کے ساتھ آگے بڑھنے کے متمنی ممالک ان معمولی تبدیلیوں کا خیر مقدم کریں گے، مثلاً خواتین کو بنیادی تعلیم تک رسائی ملنے جیسے فیصلوں پر اور خواتین اور لڑکیوں کے تمام تر حقوق ادا کرنے کے لیے طالبان پر دباؤ نہیں ڈالیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: افغان خواتین صحافت چھوڑنے لگیں
ہیدر بار لکھتی ہیں کہ بین الاقوامی برادری کے پاس اب بھی ایسے وسائل موجود ہیں جن سے وہ طالبان کو جوابدہ بنا سکتی ہے جن میں ان پر پابندیوں کے علاوہ امداد کو مشروط کرنے جیسے اقدامات بھی شامل ہو سکتے ہیں البتہ اس کے لیے انہیں بہت احتیاط سے قدم اٹھانا ہوگا تاکہ انسانی بنیادوں پر دی جانے والی مدد اور ضروری خدمات مثلاً تعلیم اور صحت عامہ تک رسائی متاثر نہ ہو۔ افغانستان جیسے ملک میں یہ خدمات مکمل طور پر غیر ملکی امداد پر انحصار کرتی ہیں کہ جہاں 72 فیصد آبادی غربت سے دو چار ہے۔
اقوامِ متحدہ کے اداروں مثلاً سلامتی کونسل اور انسانی حقوق کونسل، بین الاقوامی فوجداری عدالت، خصوصی نمائندوں اور اقوام متحدہ کے امدادی مشن برائے افغانستان کا کردار بہت اہم ہوگا
طالبان کو عملاً ثابت کرنا ہوگا کہ وہ انسانی حقوق کے معاملے میں سنجیدہ ہیں اور اس کے لیے انہیں اقوام متحدہ اور افغان اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں کو ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال کی نگرانی اور تحقیق کی کھلی اجازت دینا ہوگی
گزشتہ 20 سال کے دوران افغان لڑکیوں اور نوجوان خواتین کی ایک نئی نسل پروان چڑھی ہے۔ ان میں سے کئی ایسی ہیں جو تعلیم، کام اور اپنے ملک اور دنیا کو بدلنے کا خواب رکھتی ہیں۔ وہ طالبان کے دور کو اپنے ملک کا ایک بھیانک ماضی سمجھتی ہیں اور شکر گزار ہیں کہ اپنی ماؤں اور بزرگوں کے مقابلے میں وہ اس صورت حال سے بچ گئیں لیکن اب انہیں ایک دوراہے کا سامنا ہے۔
آخر میں انہوں نے لکھا ہے کہ اگر طالبان دنیا کو قائل کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بدل چکے ہیں تو انہیں خود کو ثابت بھی کرنا ہوگا۔
Pingback: خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے، افغانستان میں خواتین کا غیر معمولی مظاہرہ - دی بلائنڈ سائڈ