اولمپکس میں بھارت کی خواتین کی کارکردگی نے خطے کے دیگر ممالک کو بھی حیران کر دیا ہے۔ سب سے پہلے ویمنز 49 کلو گرام ویٹ لفٹنگ میں سیکھوم میرابائی چنو نے چاندی کا تمغہ حاصل کیا، پھر بیڈمنٹن میں ویمنز سنگلز میں پی وی سندھو اور ویلٹر ویٹ باکسنگ میں لولینا بورگوہین نے کانسی کے تمغے جیتے۔ یوں بھارت کے اب تک جیتے گئے 2 چاندی اور 3 کانسی کے تمغوں میں سے تین خواتین کی جانب سے آئے یعنی مردوں پر وہ کافی بھاری پڑ رہی ہیں۔ بدقسمتی سے ویمنز ہاکی ٹیم کانسی کے تمغے کے لیے کھیلے گئے میچ میں شکست کھا گئی ورنہ وہ مردوں سے مزید آگے نکل جاتیں۔
اولمپکس میں خواتین کو بھیجنے کے حوالے سے بھارت خطے کے دیگر ممالک سے کہیں زیادہ ترقی پسند سوچ کا حامل رہا ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ بھارت کی پہلی خاتون نے 1924ء کے اولمپکس میں شرکت کی تھی؟ جی ہاں! تقریباً 100 سال پہلے پیرس اولمپکس میں نورا پولی نامی خاتون نے ٹینس میں بھارت کی نمائندگی کی تھی۔
نورا پولی 1894ء میں بداؤں، اتر پردیش میں پیدا ہوئی تھیں اور 1901ء میں اسکاٹ لینڈ چلی گئی تھیں جہاں انہوں نے ہل کورٹ بورڈنگ اسکول سے تعلیم حاصل کی تھی۔ یہاں ان کی شادی سڈنی ٹریپس پولی سے ہوئی تھی جو بھارتی فوج میں افسر تھے اور 1918ء میں میجر کے عہدے تک پہنچے۔
پیرس اولمپکس میں ٹینس ایونٹ 13 سے 20 جولائی کے دوران ہوا، جس میں 14 ممالک کے 31 کھلاڑیوں نے شرکت کی۔ بھارت کے سڈنی جیکب اور نورا پولی نے اس اولمپکس میں مکسڈ ڈبلز میں حصہ لیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹوکیو اولمپکس، معصومہ علی زادہ کا خواتین اور مہاجرین کے لیے امید کا پیغام
بھارت کے پڑوسی ممالک میں بھوٹان خواتین کو اولمپکس میں بھیجنے میں دوسروں سے آگے رہا۔ 1984ء کے لاس اینجلس اولمپکس میں بھوٹان کی تین خواتین کھلاڑی کرما چھوڈن، سونم چوکی اور رنزی لام نے تیر اندازی میں حصہ لیا تھا۔
برما، سری لنکا اور نیپال 1988ء سے اولمپکس میں خواتین کھلاڑیوں کو بھیج رہے ہیں۔ سری لنکا کی دیپیکا چنموگم تیراکی میں، نیپال کی پاروتی تھاپا شوٹنگ میں اور برما کی مار مار من ایتھلیٹکس میں اپنے ملک کی نمائںدگی کرنے والی پہلی خواتین اولمپیئن تھیں، جنہوں نے سیول اولمپکس میں نئی تاریخ رقم کی تھی۔
بنگلہ دیش نے پہلی خاتون 1992ء کے اولمپکس میں شریک ہوئیں۔ شاہانہ پروین نے بارسلونا اولمپکس میں شوٹنگ میں بنگلہ دیش کی نمائںدگی کی تھی۔
ان کے مقابلے میں پاکستانی خواتین نے اولمپکس میں تاخیر سے حصہ لیا۔ شبانہ اختر ایتھلیٹکس میں پہلی پاکستانی خاتون تھین جنہوں نے 1996ء کے اٹلانٹا اولمپکس میں حصہ لیا تھا۔ وہ ویمنز لانگ جمپ ایونٹ میں شریک ہوئی تھیں۔ وہ 1995ء میں ساؤتھ ایشین گیمز میں چیمپئن رہی تھیں اور اسی کارکردگی کی بنیاد پر اولمپکس تک پہنچیں۔
یہ بھی پڑھیں: اولمپکس کا تاریخی آغاز، تقریباً ہر ملک کا پرچم خاتون کے ہاتھوں میں تھا
جنوبی ایشیا کے مقابلے میں دیگر ممالک کو دیکھیں تو برطانیہ، اٹلی، امریکا، فرانس اور سوئٹزرلینڈ 1900ء سے خواتین کو اولمپکس میں ۂھیج رہے ہیں، لیکن کئی ممالک ایسے ہیں جنہیں یہ قدم اٹھانے میں ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ مثلاً بحرین، ٹوگو، گنی بساؤ، ماریطانیہ، ایرٹریا، عراق، صومالیہ، سوڈان، فلسطین، یمن اور جبوتی جیسے کئی ممالک ہیں، جنہوں نے 2000ء میں اپنی کسی پہلی خاتون کھلاڑی کو اولمپکس میں بھیجا تھا۔
مونٹی نیگرو، بوٹسوانا، کویت اور افغانستان سمیت چند ممالک ایسے بھی ہیں جنہوں نے 2004ء میں یہ قدم اٹھایا جبکہ متحدہ عرب امارات اور عمان سمیت کچھ ملکوں کی پہلی خاتون 2008ء کے بیجنگ اولمپکس میں نظر آئیں۔
سعودی عرب وہ آخری ملک ہے جس کی کسی خاتون نے اولمپکس میں ملک کی نمائندگی کی ہو۔ یہ 2012ء کے لندن اولمپکس تھے جن میں سعودی خواتین نے شرکت کی تھی۔ جوڈو میں وجدان شہرخانی اور 800 میٹر دوڑ میں سارہ عطار وہ پہلی کھلاڑی تھیں جنہیں یہ اعزاز ملا۔
Pingback: خاتون باکسر نے تاریخ رقم کر دی، باکسنگ میں ترکی کا پہلا گولڈ میڈل - دی بلائنڈ سائڈ
Pingback: اولمپکس میں خواتین کا دن، امریکا کی فیلکس اور ڈچ سیفان حسن نے تاریخ رقم کر دی - دی بلائنڈ سائڈ