چیک جمہوریہ میں جبراً بانجھ کی گئی ہزاروں خواتین کو بالآخر سالہا سال کی کوششوں کے بعد زرِ تلافی ادا کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس غری قانونی عمل کی شکار خواتین زرِ تافی ادا کرنے کے لیے قانون منظور کیا گیا تھا، جس پر اب ملک کے صدر نے دستخط کر دیے ہیں۔
تقریباً 400 ایسی خواتین موجود ہیں کہ جن میں سے بیشتر کا تعلق روما یعنی جپسی برادری سے ہے، جو اب 3 لاکھ چیک کراؤن یعنی تقریباً 23 لاکھ پاکستانی روپے تک کی رقم پانے کی اہل ہیں، جو ملک کی وزارت صحت ادا کرے گی۔
سوویت یونین کی کٹھ پتلی ریاست چیکوسلوواکیا میں روما برادری کی آبادی بڑھنے سے روکنے کے لیے ایسی پالیسیاں اختیار کی گئی تھیں، جن میں روما خواتین کو ان کی مرضی کے بغیر بانجھ کر دیا جاتا تھا۔ کمیونسٹ دور میں ویسے بھی خواتین کو بانجھ ہونے کے مختلف مادّی فائدے دیے جاتے تھے کہ جن پر بالآخر 1991ء میں پابندی لگا دی گئی تھی لیکن سیمونا ملنکووا جیسی خواتین اس کا زندہ ثبوت ہیں کہ یہ عمل اکیسویں صدی کی پہلی دہائی تک بھی جاری رہا۔
ملنکووا کی عمر 25 سال تھی جب 2010ء میں ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ وہ اب بچے پیدا نہیں کر پائیں گی، کیونکہ انہیں بانجھ کر دیا گیا ہے۔
تازہ پیش رفت پر ملنکووا کہتی ہیں کہ گو کہ وہ اس خبر کا خیر مقدم کرتی ہیں لیکن اس سے اس تکلیف کا ازالہ نہیں ہو سکتا، جو انہوں نے اٹھائی۔
ان کے علاوہ پیروسکا سلیکووا ہیں کہ جنہیں 1983ء میں ان کی رضامندی پوچھے بغیر بانجھ کر دیا گیا تھا بلکہ انہیں تو اطلاع بھی تک نہیں دی گئی۔ تب ان کی عمر 18 سال تھی اور انہیں یہ جاننے میں تین سال لگے کہ ان کے ساتھ اصل میں کیا کیا گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں "پیسہ بلاشبہ چیز ہے، لیکن بچوں کے بغیر بھی بھلا کیا دنیا ہے؟ ان کے بغیر زندگی کچھ نہیں۔”
اس حوالے سے مہم چلانے والی اہم شخصیت کمار وشوَناتھ کہتےہیں کہ ماضی کی حکومت کا کردار کٹھ پتلی کا تھا اور اپنے شہریوں کو غلام سمجھتی تھی۔ اس کی حرکتوں کے خواتین پر بھیانک نتائج مرتب ہوئے، خاص طور پر روما خواتین پر۔
2001ء میں یورپین روما رائٹس سینٹر نے انکشاف کیا تھا کہ چیکوسلوواکیا میں غیر قانونی طور پر بانجھ کرنے کا عمل 1989ء میں کمیونزم کے خاتمے کے بعد بھی جاری رہا۔
وشوَناتھ نے کہا کہ مجھے سخت دھچکا پہنچا جب مجھے پتہ چلا کہ جبراً بانجھ کی گئی کئی خواتین میری دوست اور پڑوسنیں تھیں۔ کسی نے اس بارے میں مجھ سے کبھی ایک لفظ تک نہیں کہا تھا۔
پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایسی 12 خواتین کی ملاقات کروائیں۔ جہاں بہت احتیاط کے ساتھ انہوں نے اس موضوع کو چھیڑا۔ "مجھے آج بھی وہ خاموشی یاد ہے جب میں نے کہا تھا کہ مجھے معلوم ہے کہ ان کے ساتھ کیا کیا گیا ہے۔ چند منٹوں کی خاموشی کے بعد بالآخر ایک خاتون بول پڑیں۔ انہوں نے بتایا کہ مجھے میرے شوہر نے پیٹ میں لات ماری تھی جب اسے پتہ چلا کہ میں بچے پیدا نہیں کر سکتی۔ اس کے بعد ایک کے بعد دوسری کے داستانیں کھلتی چلی گئی۔ خواتین کا یہ گروپ تقریباً دو دہائیوں تک ایک ساتھ رہا، اور زرِ تلافی کے لیے آواز بلند کرتا رہا۔
چیک حکومت نے 2009ء میں ایسی خواتین سے باضابطہ طور پر معافی مانگی تھی، لیکن انہیں زر تلافی ادا کرنے کے لیے قانونی مسودہ بنانے میں مزید 10 سال لگ گئے۔
اس کامیابی کے باوجود وشوَ ناتھ سمجھتے ہیں کہ خواتین کے احترام کی منزل حاصل کرنے کے لیے چیک جمہوریہ کو اب بھی طویل فاصلہ طے کرنا ہے۔
جواب دیں