ریپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بچی کا اصل باپ پر مقدمہ، 11 سال قید کروا دی

مجرم نے 46 سال پہلے لڑکی کی والدہ کے ساتھ ریپ کیا تھا، جب اُن کی عمر صرف 13 سال تھی

برطانیہ میں 46 سال پہلے ایک 13 سالہ بچی کے ساتھ ریپ کرنے والے شخص کو 11 سال قید کی سزا دے دی گئی ہے۔

یہ انوکھا مقدمہ ایک 45 سالہ خاتون ڈیزی نے کیا تھا، جن کا کہنا ہے کہ وہ مجرم کارویل بینٹ کی ہی بیٹی ہیں، جو اس ریپ کے نتیجے میں پیدا ہوئی تھی۔ ڈیزی کی والدہ مجرم کے گھر میں بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں، جب ایک روز بینٹ نے ان کے ساتھ ریپ کیا اور اگلے سال ڈیزی پیدا ہوئیں۔

اپنی نوعیت کے اس پہلے مقدمے میں برمنگھم کی عدالت میں جیوری نے دو گھنٹے کی مشاورت کے بعد 74 سالہ بینٹ کو مجرم قرار دیا۔ ڈیزی اور ان کے دونوں حقیقی والدین کے ڈی این اے ٹیسٹ سے اس کی تصدیق ہوئی تھی۔

جیوری کو بتایا گیا کہ ڈیزی کی والدہ کی عمر اب 59 سال ہے۔ وہ بینٹ کے دو بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ ایک بار جب وہ گھر میں آئیں تو ایک بچے نے کہا کہ اب آپ کو اوپر بلا رہے ہیں۔ وہ ان کی گھر میں موجودگی پر حیران ہو گئیں کہ جب وہ گھر میں ہیں تو انہیں بلانے کی کیا ضرورت تھی؟ بہرحال، وہ کمرے میں داخل ہوئیں تو بینٹ نے دروازہ بند کر دیا۔ "بینٹ نے کہا کہ وہ مجھے نقصان نہیں پہنچائے گا لیکن اس نے میرے ساتھ ریپ کیا اور کہا کہ خاموش رہنا، کسی کو مت بتانا۔ میں خاموش رہی لیکن شدید ذہنی صدمے سے دوچار رہی اور میرا بچپن ایک خوف زدہ بچی کے طور پر گزرا۔ میری عمر اس وقت 13 سال تھی۔”

بینٹ نے عدالت میں کہا کہ اس روز جو کچھ ہوا، اس پر اسے افسوس ہے لیکن اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ریپ نہیں تھا۔ یہ باہمی رضامندی سے کیا گیا عمل تھا کیونکہ بتایا گیا تھا کہ اس کی عمر 16 سال ہے۔ "مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس کی عمر 13 سال ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ مجھے معافی مانگنی چاہیے۔ ”

خاتون ان تمام الزامات کی تردید کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ انہوں نے ابتدا میں پولیس کو بیان دینے سے اس لیے انکار کیا تھا، کیونکہ وہ اس بھیانک یاد کو ذہن میں تازہ نہیں کرنا چاہتی تھیں۔

جرم کے وقت بینٹ کی عمر 28 سال تھی اور ان کی حرکت کے نتیجے میں 14 سال کی عمر میں خاتون نے بچی کو جنم دیا، جسے بعد ازاں یتیم خانے میں جمع کروا دیا گیا اور وہ لے پالک کی حیثیت سے کسی کے گھر میں پلیں۔

ڈیزی کا کہنا ہے کہ 46 سال بعد بالآخر انصاف کے تقاضے پورے ہوئے، جس پر میں خوش تو ہوں، لیکن اس میں اتنی تاخیر نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اب یہاں سے میرا اصل کام شروع ہوگا یعنی ریپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کے حقوق تسلیم کرنے کے لیے قانون میں تبدیلی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے