بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کی سویتری دیوی ایک گارمنٹ فیکٹری میں کام کرتی تھیں، لیکن ملازمت سے نکالے جانے کے بعد سے اب تک کام کی تلاش میں ناکام ہیں۔ 44 سالہ دیوی نے اپنے گھر کے قریب اوکھلا کے علاقے میں کئی بار قسمت آزمائی کی لیکن اب تک انہیں کامیابی نہیں ملی۔ یہ ہزاروں چھوٹے کارخانوں پر مشتمل ایک صنعتی علاقہ ہے کہ جہاں پہلے غیر ہنر مند خواتین کو عام طور پر کام مل جاتا تھا۔
دیوی کہتی ہیں کہ "میں کم تنخواہ پر بھی کام کرنے کو تیار ہوں، لیکن کام مل نہیں رہا۔” وہ ایسی کچی آبادی میں رہتی ہیں جہاں لگ بھگ 100 خاندان آباد ہیں اور یہ علاقہ وزیر اعظم نریندر مودی کے دفتر سے محض چند کلومیٹرز کے فاصلے پر ہے۔
سویتری دیوی ان تقریباً 1.5 کروڑ بھارتیوں میں شامل ہیں جو معاشی سست روی سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں جس کا نشانہ خاص طور پر خواتین بنی ہیں۔ ملک میں زیادہ تر خواتین کم مہارت رکھنے والے کام کرتی ہیں، مثلاً کھیتوں میں یا کارخانوں میں چھوٹا موٹا کام یا گھریلو ملازمت، اور یہی وہ شعبے ہیں جو وبا میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
معاشی بحالی کا عمل اتنی تیزی سے ہونا متوقع نہیں اس لیے مستقبل کے امکانات بھی روشن نظر نہیں آتے۔ ہزاروں کارخانے بند ہو چکے ہیں، ویکسین لگوانے کی شرح بھی کم ہے، جس سے سب سے زیادہ خواتین متاثر ہو رہی ہیں کیونکہ یہ عوامل ان کی افرادی قوت میں واپسی کی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان، افرادی قوت میں خواتین کی نمائندگی تشویش ناک حد تک کم
بھارت کی بڑی ٹریڈ یونینز میں سے ایک آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس کی جنرل سیکریٹری امرجیت کور کہتی ہیں کہ بھارتی خواتین نے گزشتہ دہائی میں جو سماجی اور معاشی پیش رفت کی تھی، کووِڈ کے دوران اس کا بڑی حد تک خاتمہ ہو چکا ہے۔
وبا کی دوسری لہر نے بھارت پر موجود معاشی دباؤ میں مزید اضافہ کر دیا ہے، جو پہلے ہی 70 سال کی بد ترین کساد بازاری (recession) سے دوچار تھا۔ کیونکہ بھارت کی افرادی قوت کا غالب حصہ غیر رسمی شعبے سے وابستہ ہے، اس لیے بے روزگاری کا حقیقی اندازہ لگانا کافی مشکل ہے لیکن یہ واضح ہے کہ افرادی قوت میں سب سے زیادہ خواتین کو پہنچا ہے۔ 10 لاکھ سے زیادہ چھوٹے اداروں کی نمائندگی کرنے والے کنسورشیم آف انڈین انڈسٹریز (CIA) کا کہنا ہے کہ روزگار کے ضائع ہونے والے مواقع میں سے 60 فیصد خواتین کے ہیں۔
عظیم پریم جی یونیورسٹی کے سینٹر فار سسٹین ایبل ایمپلائمنٹ کی رپورٹ کے مطابق مارچ اور دسمبر کے دوران یعنی اپریل میں دوسری لہر کی آمد سے بھی پہلے اپنے کام سے محروم ہونے والی 47 فیصد خواتین ایسی ہیں، جن کی اب ضرورت نہیں ہے یعنی اب ان کے لیے روزگار کے مواقع دستیاب ہی نہیں۔ اس کے مقابلے میں مردوں میں یہ شرح صرف 7 فیصد ہے۔ ان میں سے کئی تو اپنی پرانی ملازمتوں پر ہی واپس آ چکے ہیں جبکہ کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے کام شروع کر دیے ہیں، مثلاً سبزیاں بیچنا وغیرہ۔
دیوی کہتی ہیں کہ ہم نے دودھ، سبزی، کپڑوں یہاں تک کہ ہر چیز کے استعمال میں کمی کر دی ہے، اور یوں اپنے دیہاڑی دار مزدور شوہر کے ساتھ مل کر اپنے بے روزگار بیٹے اور بزرگ والدہ کا پیٹ پالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا کی معیشت کس طرح چلے گی؟ خواتین تبدیلی لائیں گی
امرجیت کور کا کہنا ہے کہ جو خواتین ہجرت کر کے شہروں کو آئی تھیں، ملازمت سے محروم ہونے کے بعد اب ان کے اپنے گاؤں چھوڑ کر دوبارہ واپس آنے کا امکان کم ہے۔
بھارت میں روایتی گھریلو ذمہ داریاں بھی خواتین کی افرادی قوت میں واپسی کے امکانات کو کم کر رہی ہیں۔ بھارت میں گھریلو کاموں میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کا حصہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور زیادہ تر بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی خواتین ہی انجام دیتی ہیں، جو وبا کے دوران اسکول بند ہونے کی وجہ سے کہیں بڑھ گئی ہے۔
32 سالہ چنیا دیوی کہتی ہیں کہ دور واقع کارخانوں میں کام تو مل رہا ہے لیکن وہ اپنے بچے کی دیکھ بھال کی وجہ سے وہاں جا نہیں سکتیں۔ وہ اوکھلا کی ایک پیکیجنگ کمپنی میں کام کرتی تھیں اور اِس سال کے اوائل میں ملازمت سے محروم ہوئی تھیں۔
خواتین کو مالی خود مختاری حاصل نہ ہو تو انہیں محض مالی ہی نہیں بلکہ جسمانی اور نفسیاتی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نئی دہلی کے نواحی علاقے نجف گڑھ میں ایک اسکول چلانے والی ریتو گپتا کہتی ہیں کہ گھر پر موجود ہمارے مرد یا سرکاری عہدیدار کبھی نہیں سمجھیں گے کہ ملازمت سے محروم ہو جانے کے بعد خواتین پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایک سال سے زیادہ عرصے سے اسکول بند ہونے کی وجہ سے میں گھر پر بیٹھی خود کو بیکار محسوس کرتی ہوں۔ یہ صرف مالی نقصان نہیں ہے بلکہ زندگی بھی بے مقصد لگتی ہے۔
جواب دیں