مقبوضہ کشمیر میں پھنسی پاکستانی خواتین کا لائن آف کنٹرول کی طرف مارچ

مظاہرے میں شریک 16 خواتین کو گرفتار کیا گیا ہے، منتظمین

پاکستان سے تعلق رکھنے والی کم از کم 16 خواتین نے کو مقبوضہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کی طرف مارچ کرنے پر گرفتار کر لیا گیا ہے، جن کا مطالبہ تھا کہ انہیں پاکستان واپس بھیجنے کے انتظامات کیے جائیں۔

مظاہرے میں ان خواتین کے بچوں سمیت کُل 30 افراد شریک تھے، جنہوں نے اپنے مطالبات کے حق میں ایل او سی کی جانب پیش قدم کی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں سفری دستاویزات بنا کر دی جائیں تاکہ وہ پاکستان میں موجود اپنے والدین اور رشتہ داروں سے مل سکیں۔ لیکن خان پور پہنچتے ہی پولیس نے مظاہرین کی پیش قدمی روک دی اور اس مظاہرے میں شریک نہ ہو پانے والی پاکستانی خاتون سائرہ جاوید کا کہنا ہے کہ  ان میں سے 16 کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی خواتین جو مقبوضہ کشمیر جا کر پھنس گئیں

مظاہرین کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ انتظامیہ اور سابق ریاستی حکومتوں نے ہمیشہ ان کے جائز مطالبات کو ٹھکرایا۔ ایک خاتون نصرت بیگم نے کہا کہ ہم آخری سانس تک اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرے جاری رکھیں گے۔ اگر حکومت ہمیں قبول نہیں کرتی تو ملک بدر کر کے پاکستان بھیجے دے۔

"ہمیں تو ویسے ہی قبول کر لینا چاہیے تھا کیونکہ ہمارے شوہر کشمیری ہیں اور ہم نے ان سے شادیاں کر کے کوئی جرم نہیں کیا تھا۔ جب کشمیری بھارت کے شہری کہلاتے ہیں تو ہمیں بھی شہریت ملنی چاہیے تھی۔”

انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کو ہمیں قبول کرنا چاہیے کیونکہ ہمارے بچے اور خاندان یہاں موجود ہیں۔

مظاہرے میں شریک ایک اور خاتون بشریٰ نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے ہم نے کوئی مظاہرہ کیا ہے، بلکہ ہم سالوں سے سڑکوں پر ہی ہیں۔ ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی دستاویز یا شناخت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ مظاہرے جاری رہیں گے جب تک ہمیں سفری دستاویزات نہیں دی جاتیں تاکہ ہم پاکستان جا سکیں اور اپنے پیاروں سے مل سکیں۔

 

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے