کورین کھلاڑی تین گولڈ میڈل جیتنے کے باوجود بد ترین تنقید کی زد میں کیوں؟

"تمہارے بال اتنے چھوٹے کیوں ہیں؟ کہیں تم "فیمنسٹ" تو نہیں ہو؟"

جنوبی کوریا کی کم عمر ترین تیر انداز نے اولمپکس میں ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ 20 سالہ آن سان نے سونے کے تین تمغے جیتنے والی جنوبی کوریا کی پہلی کھلاڑی بن گئی ہیں جبکہ ٹوکیو میں جاری اولمپکس میں بھی وہ تمغوں کی ہیٹ ٹرک کرنے والی پہلی کھلاڑی بنی ہیں۔

لیکن اتنے بڑے کارنامے کے باوجود انہیں سراہنے کے بجائے مردوں کی جانب سے بدترین تنقید کا سامنا ہے کیونکہ ان کے بال چھوٹے ہیں اور وہ "فیمنسٹ” لگتی ہیں۔

آن لائن دنیا میں خواتین کو دھمکانے کا یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں۔ جنوبی کوریا میں جہاں کاروبار سے لے کر میدانِ سیاست تک ہر جگہ مردوں کا راج ہے، خواتین کے حقوق کے لیے اٹھتی ہوئی ہر آواز کے خلاف سخت ردِ عمل سامنے آتا ہے۔ آن سان کے ساتھ بھی یہی کیا گیا، مطالبات دیکھ کر اندازہ لگائیں کہ "ان کے بالوں سے ظاہر ہے کہ وہ "فیمنسٹ” ہیں اس لیے انہیں تمام تمغوں سے محروم کر دینا چاہیے” اور "وہ اپنے اِس رویے کی معافی مانگیں اور وضاحت کریں۔”

بہرحال، ہزاروں انٹرنیٹ صارفین، جن میں جنوبی کوریا کی کئی معروف شخصیات بھی شامل ہیں، آن سان کی بھرپور حمایت کر رہی ہیں۔ کوریا آرچری ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ بھی ایسے مثبت پیغامات سے بھری پڑی ہے جو آن سان کے لیے آئے ہیں۔ کئی معروف شخصیات اور سیاست دانوں نے آن سان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی اور ان کی حمایت کے لیے اپنی چھوٹے بالوں والی تصاویر پیش کی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ٹوکیو اولمپکس، معصومہ علی زادہ کا خواتین اور مہاجرین کے لیے امید کا پیغام

پارلیمان کی کم عمر ترین رکن ریو ہو-جیونگ نے لکھا ہے کہ میرے بال کئی سال سے چھوٹے تھے اور میں نے حال ہی میں اپنے بال بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے، صرف اس لیے کیونکہ میں ایسا چاہتی ہوں۔ کسی کو "فیمنسٹ” حلیہ والی کہنا کوئی معنی نہیں رکھتا، کیونکہ فیمنسٹ وہ ہے جو اپنے فیصلے خود کرتی ہے، اسے کسی دوسرے کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔”

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ آن سان کو اپنے بالوں کی وجہ سے ایسے سوالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مارچ میں انہوں نے انسٹاگرام پر ایک وڈیو ڈالی تھی جس میں انہیں تیر اندازی کی تربیت کرتے دیکھا جا سکتا تھا۔ تب تبھی ایک صارف نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ نے اپنے بال کیوں چھوٹے کروا لیے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا تھا کیونکہ میں اس میں خود کو پُر سکون محسوس کرتی ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: اولمپکس، ہیجان خیز لباس کے خلاف جرمن کھلاڑیوں کا انوکھا احتجاج

چانگ وون نیشنل یونیورسٹی کی ماہر فلسفہ ین کم جی یونگ کاکہنا ہے کہ میڈیا اور سیاست دانوں نے ملک میں زن بیزاری کو فروغ دیا ہے۔ "ابلاغی ادارے ایسے تبصروں کے لیے پلیٹ فارم مہیا کر رہے ہیں جبکہ سیاست دان مردوں کے معاشرے میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے "اینٹی-فیمنسٹ” نظریات کو فروغ دے رہے ہیں۔”

اس صورت حال میں واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ جنسیت (sexism) سے بھرپور کلمات کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ صنفی برابری کی اقدار اور دوسرے لوگوں کے احترام کے رویّے کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ ایسے میڈیا اداروں اور سیاست دانوں پر کڑی تنقید کرنا ہوگی جو ایسے رویّوں کو فروغ دیتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے