27 سالہ نور مقدّم جنوبی کوریا کے لیے پاکستان کے سابق سفیر کی صاحبزادی تھیں، جنہیں 20 جولائی کو اسلام آباد میں بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا گیا۔ ان کا قاتل ظاہر ضمیر جعفر مبینہ طور پر اُن کا دوست تھا اور پولیس کے مطابق اس نے قتل کے بعد نور کا سر قلم کر دیا تھا۔
پاکستان میں خواتین پر تشدد عام ہے لیکن حالیہ چند ہفتوں میں پیش آنے والے واقعات نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ صوبہ سندھ میں ایک شخص نے بیوی کو جلا کر قتل کر دیا تو دوسری جانب شکار پور میں ایک شخص نے اپنی بیوی، دو بیٹیوں اور چچی کو قتل کیا۔ پھر راولپنڈی میں ایک 30 سالہ خاتون کے ساتھ ریپ کا واقعہ پیش آیا کہ جس کے بعد اسے اس کے 14 ماہ کے بیٹے سمیت قتل کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ پشاور میں غیرت کے نام پر ایک شخص نے اپنی سابقہ اہلیہ سمیت دو خواتین کو قتل کیا۔
یہ بھی پڑھیں: نور مقدم کا وحشیانہ قتل، اشرافیہ کا بھیانک چہرہ اور خدشات
یہ تمام واقعات وطنِ عزیز میں خواتین کی حالتِ زار پر سوالات اٹھاتے ہیں اور اب ایسے واقعات میں مجرموں کو کھلی چھوٹ ملنے اور خواتین کے خلاف پیدا ہونے والے رجحان پر بات ہو رہی ہے۔
پاکستان کو خواتین کے لیے دنیا کا چھٹا خطرناک ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اب یہاں جنسی جرائم اور گھریلو تشدد کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ نظر آ رہا ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ عورتوں کے خلاف جرائم میں حالیہ اضافے کا بنیادی سبب یہی ہے کہ اس کے مرتکب افراد کو قانون کا خوف نہیں ہے اور انہیں ایسی حرکتوں کی کھلی چھوٹ ہے۔
صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سابق قانون ساز یاسمین لہری کہتی ہیں کہ ایک شخص جس نے ایک نوجوان وکیل کو خنجروں کے درجنوں وار سے زخمی کیا، حال ہی میں ایک عدالت نے اسے قبل از وقت رہائی دی ہے۔ بتائیں اس طرزِ عمل سے عورتوں پر تشدد کے حوالے سے کیا پیغام مل رہا ہے؟
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی خواتین خود سوزی اور اقدامِ خود کشی کیوں کر رہی ہیں؟
خواتین کے حقوق کی کارکن اور 2002ء میں گینگ ریپ کا نشانہ بننے والی مختار مائی کا بھی یہی کہنا ہے کہ خواتین پر ظلم ڈھانے والوں کو قانون کا کوئی خوف نہیں ہوتا اور وہ اس کے نتائج سے بے پروا ہوتے ہیں۔ "بیشتر مردوں کے لیے تو عورتوں کو مارنا جرم ہے ہی نہیں۔ معاشرہ اب بھی جاگیردارانہ اور قبائلی روایات میں جکڑا ہوا ہے۔”
دیگر کی نظر میں اس کا سبب ہمارے معاشرے کی پدر شاہی (patriarchal) روایات اور رویّے ہیں۔ عورت فاؤنڈیشن کی مہناز رحمٰن کہتی ہیں کہ خواتین کو سکھایا جاتا ہے کہ انہیں مردوں کی اطاعت کرنی ہے کیونکہ وہ اعلیٰ اور برتر ہیں۔ پھر جب عورت اپنا حق مانگتی ہے تو بسا اوقات اسے تشدد کا نشانہ بھی بننا پڑتا ہے۔
شازیہ خان کہتی ہیں کہ
اس رویّے کا ایک سبب مذہب کی غلط تفہیم بھی ہے۔ مذہبی احکامات کی تشریح اس طرح کی جاتی ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اسلام مرد کو اجازت دیتا ہے کہ اسے مارا جائے۔ ایسے لوگ کم عمری کی شادی کی حمایت بھی کرتے ہیں اور عورتوں کو کہتے ہیں کہ وہ اپنے شوہروں کی اطاعت کریں، چاہے وہ ان پر تشدد ہی کیوں نہ کرتا ہوں۔ دراصل اس طرح عورتوں پر تشدد کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
دوسری جانب ملک کا قدامت پسند طبقہ ہے جو ملک میں بڑھتے ہوئے جنسی و جسمانی تشدد کی وجہ مغربی کلچر کے بڑھتے ہوئے اثرات کو قرار دیتا ہے۔ سابق رکن پارلیمان سمیحہ راحیل قاضی کہتی ہیں کہ تشدد کے حالیہ واقعات دراصل اسلامی تعلیمات سے رو گردانی کا نتیجہ ہیں۔ نور مقدّم کے معاملے ہی کو دیکھ لیں کہ جس میں ملزم دراصل ملحد اور مغرب زدہ شخص ہے۔
ملک میں مغربی کلچر کا اثر و رسوخ بڑھنے کی وجہ سے خاندانی نظام کمزور پڑ رہا ہے اور اسی لیے جرائم بھی بڑھ رہے ہیں۔
ایک قانون ساز کشور زہرہ بھی ان سے اتفاق کرتی ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ہمیں ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے اپنی خاندانی اقدار کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔
جواب دیں