اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے زور دیا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے خلاف عملی اقدامات اٹھائے جائیں کہ جس کے ایک تہائی شکار بچے ہیں۔
کووِڈ کی وبا نے 12.4 کروڑ افراد کو انتہائی غربت میں دھکیل دیا ہے، اس جانب اشارہ کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ اس وقت مزید کروڑ ہا افراد اس کی زد پر ہیں۔
انسانی اسمگلنگ کے خلاف عالمی دن کے موقع پر گوتیریس نے کہا ہے کہ کم آمدنی والے ممالک میں اس کے نصف شکار بچے ہیں اور زیادہ تر ان کی اسمگلنگ جبری مشقت کروانے کے لیے کی جاتی ہے۔
Children are at great and growing risk of human trafficking: they represent one-third of victims globally — a share that has tripled in the last 15 years.
Governments must take urgent steps to strengthen prevention, support victims and bring perpetrators to justice. pic.twitter.com/U3eOAhAe3e
— António Guterres (@antonioguterres) July 30, 2021
اقوامِ متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ مجرم آسان شکار کا پتہ چلانے، ان پر گرفت پانے اور ان کے استحصال کے لیے اب ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کر رہے ہیں۔ بچوں کو جنسی استحصال، جبری شادیوں اور دیگر مظالم کے لیے آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے نشانہ بنانے کے عمل میں تیزی آ رہی ہے۔
اس عالمی دن کے موقع پر اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم (UNODC) نے ایک مہم کا آغاز کیا ہے جس کا عنوان ‘مظلوموں کی آواز پیش پیش’ جس کے ذریعے ان مظلوموں کی اَن سُنی آوازوں اور انسانی اسمگلنگ کے خلاف جدوجہد میں ان کے کردار پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔
UNODC کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر غدہ ولی کہتی ہیں کہ انسانی اسمگلنگ کو روکنے، اس سے کا سامنا کرنے والوں کی مدد اور مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے مظلوموں کی آواز بہت اہمیت رکھتی ہے۔ یہ ادارہ قوانین کے اطلاق کے لیے مختلف ملکوں اور دیگر اداروں کی مدد کرتا ہے۔
“Victims’ voices are key to preventing trafficking, supporting survivors & bringing perpetrators to justice”, says @GhadaFathiWaly in her video message for World Day Against Trafficking in Persons.
Victims’ Voices Lead the Way – let’s follow their lead.#EndHumanTrafficking💙 pic.twitter.com/j3xeoB1gyc— UN Office on Drugs & Crime (@UNODC) July 30, 2021
انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے اقوام متحدہ کی مقرر کردہ ماہر سیوبین ملالی کہتی ہیں کہ خطرے سے دوچار افراد کو بلا امتیاز تحفظ دینے یا ان کی مدد کرنے کے بجائے انسانی اسمگلنگ کا نشانہ بننے والے بچوں کو غیر قانونی تارکِ وطن شمار کر لیا جاتا ہے یا پھر انہیں مقدمات میں گھسیٹ کر ان کی عمر اور ساکھ پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔
انہوں نے عملی اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ نسل پرستی، غیر ملکیوں سے خوف (زینوفوبیا) اور صنفی بنیاد پر امتیاز انسانی اسمگلنگ کا نشانہ بننے والے افراد کے بنیادی انسانی حقوق کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اور اس گھناؤنے عمل کے مرتکب افراد کو اپنی غیر قانونی حرکتیں کرنے کی کھلی چھوٹ دے رہے ہیں۔
"انہیں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا شکار سمجھنے کے بجائے گرفتار کیا جاتا ہے، حراست میں رکھا جاتا ہے اور مدد اور تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا، یہاں تک کہ انہیں نسلی بنیادوں پر امتیازی سلوک کرتے ہوئے جبراً اپنے آبائی ملکوں کو واپس بھیج دیا جاتا ہے۔”
انہوں نے نجی شعبے اور اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں، تعلیمی نظام، کام کی جگہوں، چائلڈ پروٹیکشن سسٹمز اور انسانی اور امن آپریشنز میں نسل پرستی اور غیر ملکیوں کے خوف کا خاتمہ کرنے کا مطالبہ کیا۔
ملالی نے کہا کہ نسل پرستی اور غیر ملکیوں سے خوف کے ساتھ جب صنفی امتیاز کا اضافہ ہو جاتا ہے تو اس کے شکار افراد مزید گمبھیر صورت حال سے دو چار ہو جاتے ہیں۔ "انسانی اسمگلنگ کے شکار افراد کی آواز لازماً بلا امتیاز اور بلا استثنیٰ سامنے آنی چاہیے۔ ایسے تمام افراد کو با اختیار بنانا انسانی اسمگلنگ کا نشانہ بننے والے تمام لوگوں کے انسانی حقوق کے لیے ضروری ہے۔”
Pingback: پاکستان میں بیچی گئی خاتون 38 سال بعد اپنی ماں سے ملنے بنگلہ دیش روانہ - دی بلائنڈ سائڈ