ٹوکیو اولمپکس، معصومہ علی زادہ کا خواتین اور مہاجرین کے لیے امید کا پیغام

افغان کھلاڑی نے سائیکلنگ کے ایونٹ میں حصہ لیا اور ایک نئی تاریخ رقم کی

افغانستان کی معصومہ علی زادہ نے مہاجرین کی اولمپک ٹیم کی جانب سے سائیکلنگ کے ایونٹ میں حصہ لیا۔ گو کہ وہ آخری نمبر پر آئیں لیکن ان کی شرکت ایک غیر معمولی کارنامہ ہے، تمغا جیتنے سے کہیں زیادہ کیونکہ اس سے دنیا بھر کے مہاجرین کو امید اور امن کا پیغام ملا ہے۔

وہ پہلی بار اولمپکس میں حصہ لے رہی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ بہت شاندار تجربہ تھا۔ "میں بہت خوش ہوں کیونکہ میں نے اس کے لیے سخت محنت کی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے مہاجرین کی اولمپک ٹیم کی نمائندگی کی جو ان 8.2 کروڑ افراد کے لیے امید اور امن کا پیغام دیتی ہے جو مختلف وجوہات کی بنا پر اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ میں افغانستان اور اس جیسے دوسرے ملکوں میں خواتین کے حقوق کی بھی نمائندگی کر رہی ہوں۔ یعنی میری یہاں موجودگی کے دو مقاصد ہیں – خواتین کے حقوق اور مہاجرین کے بھی۔”

بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے جون میں اعلان کیا تھا کہ ٹوکیو میں 29 کھلاڑی کو مہاجرین کی اولمپکس ٹیم کی نمائندگی کریں گے۔

معصومہ اور ان کی بہن زہرہ 2016ء کی اُس فرانسیسی دستاویزی فلم کا حصہ تھیں، جس نے دنیا بھر میں تہلکہ مچایا تھا۔ یہ دونوں بہنیں افغانستان کی پہلی ویمنز سائیکلنگ ٹیم کا حصہ ہیں، جن پر بنائی گئی فلم "The Little Queens of Kabul” افغانستان میں خواتین کو سائیکلنگ میں درپیش چیلنجز کو دستاویزی صورت دیتی ہے۔

معصومہ نے افغانستان میں سائیکل چلانے کے حوالے سے اپنے تجربات کے بارے میں بتایا کہ مجھے دھمکایا گیا، ڈانٹا گیا اور سائیکلنگ کے دوران پتھر تک پھینکے گئے۔ لیکن کوئی اوچھی حرکت مجھے سائیکلنگ سے روک نہیں پائی۔

اب معصومہ، اُن کی بہن، والدین اور تین بھائی فرانس میں مقیم ہیں۔ انہوں نے یہاں سیاسی پناہ کی درخواست دی تھی، جسے 2017ء میں قبول کیا گیا تھا۔ دونوں بہنوں نے یونیورسٹی آف للی میں داخلہ لیا تھا جہاں 2016ء کے اولمپکس سے پہلے انہیں بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کے ‘ریفیوجی ایتھلیٹ اسکالرشپ پروگرام’ کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔

"جب میں نے سائیکلنگ شروع کی تھی تو افغانستان میں کئی لوگوں نے اسے قبول نہیں کیا کیونکہ کسی لڑکی کے لیے سائیکل چلانا اُن کے لیے نئی چیز تھی۔ مجھے اندازہ ہے کہ وہ اس چیز کو کیوں قبول نہیں کر پائے۔ کیونکہ یہاں ٹوکیو میں بھی مجھے عجیب نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ انہوں نے کبھی اسکارف پہنی لڑکی کو سائیکل چلاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ بہرحال، مجھے یقین ہے کہ افغانستان میں اگر وہ روزمرہ بنیادوں پر کسی خاتون کو سائیکل چلاتے دیکھیں گے، تو اسے قبول کریں گے۔”

معصومہ نے بتایا کہ ان کے والد نے سائیکل چلانے پر ابتدا ہی سے انہیں خوب سراہا اور حوصلہ افزائی کی۔ "جب میں افغانستان میں تھی تو واحد شخصیت جس نے میری حوصلہ افزائی کی وہ میرے والد تھے۔ جب میں سب کچھ چھوڑ دینا چاہتی تھی، تب بھی انہوں نے حوصلہ دیا کہ نہیں، تم نے آگے بڑھنا ہے۔ آج صبح بھی ان پیغام آیا کہ اپنی بہترین کارکردگی دکھاؤ۔ امید ہے انہیں خوشی ہوئی ہوگی۔”

2 Pings & Trackbacks

  1. Pingback: کورین کھلاڑی تین گولڈ میڈل جیتنے کے باوجود بد ترین تنقید کی زد میں کیوں؟ - دی بلائنڈ سائڈ

  2. Pingback: اولمپکس اور خواتین، کس ملک نے کب پہلی خاتون کو بھیجا؟ - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے