سندھ کے ضلع گھوٹکی کے ایک چھوٹے سے گاؤں فتو شاہ کے نواح میں ایک قبرستان ہے جو صرف خواتین کے لیے مخصوص ہے۔ بلکہ محض عورتوں کے لیے نہیں بلکہ گورکن اور مقامی دیہاتیوں کے مطابق ان کے لیے جو "کاری” قرار دے کر مار دی جاتی ہیں یعنی وہ خواتین جنہیں "غیرت” کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں ہر سال سینکڑوں خواتین قتل کی جاتی ہیں، جن میں سے بیشتر اپنے ہی خاندان کے افراد کے ہاتھوں نام نہاد "غیرت” کے نام پر موت کے گھاٹ اتاری جاتی ہیں۔ کبھی اپنی پسند کی شادی پر، کسی بھی قابلِ اعتراض سمجھی جانے والی حرکت یا محض اس کے شبہ پر ہی انہیں مار دیا جاتا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2020ء میں ملک میں "غیرت” کے نام کے قتل کے 430 واقعات سامنے آئے۔ ان میں 148 مرد اور 363 خواتین نشانہ بنیں۔ ان میں سے 136 لڑکیوں اور خواتین سمیت کُل 215 قتل صوبہ سندھ میں ہوئے۔ گو کہ ملک کا قانون "غیرت” کے نام پر قتل کو ممنوع قرار دیتا ہے، لیکن انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں اور شخصیات کا کہنا ہے کہ قانون کے عملی نفاذ میں کوتاہی کی جاتی ہے اور کبھی کبھی تو ملزم ضمانت پر رہائی پالیتا ہے اور معاملہ سرد خانے کی نذر ہو جاتا ہے۔
اس کا ایک عملی ثبوت "کارین جو قبرستان” یا "کاریوں کا قبرستان” ہے۔ چار دہائی قدیم اس قبرستان کے 67 سالہ گورکن علی نواز کہتے ہیں کہ یہاں کم از کم 400 قبریں ہیں اور سبھی "غیرت” کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ چند سالوں سے یہاں تدفین کی شرح میں کمی آئی ہے، لیکن خواتین کو اب بھی "غیرت” کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔
انہی خواتین میں سے ایک نصیراں چنیسر بھی تھیں۔ ان کے 21 سالہ بھانجے اللہ بخش کے مطابق وہ 10 سال کے تھے جب 2013ء میں خالہ نصیراں اپنے گھر سے اچانک ‘غائب’ ہو گئی تھیں۔ کئی دنوں تک وہ اپنی والدہ سے خالہ کا پوچھتے رہے۔ تیسرے دن کسی گاؤں والے نے ان کے کان میں بتایا کہ انہیں ‘کارین جو قبرستان’ میں دفنایا گیا ہے۔ اللہ بخش بتاتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ قبرستان میں ان کی خالہ کی قبر کون سی ہے۔ واحد شخص جس سے میں پوچھ سکتا تھا، وہ میری والدہ تھیں لیکن انہیں بھی اس قبر کا نہیں معلوم۔
علی نواز کہتے ہیں کہ
اس قبرستان میں کوئی نہیں آتا، یہاں تک کہ تہواروں کے موقع پر بھی کہ جب عموماً لوگ اپنے پیاروں کی قبروں پر حاضری دیتے ہیں۔ کئی قبریں ایسی ہیں جو ختم ہو چکی ہیں اور کچھ کی تو علامتیں تک مٹ چکی ہیں۔ اگر کوئی یہاں آئے بھی تو قبر کو پہچان نہیں سکتا۔
یہاں ایک قبر گل بانو کی بھی ہے جنہیں 2014ء میں ان کے بڑے بھائی نے قتل کر دیا تھا۔ گل بانو کے ایک قریبی عزیز مراد مہر کہتے ہیں ہر شبِ برات کو لوگ قبرستانوں میں اپنے عزیزوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے جاتے ہیں اور گل بانو کی والدہ گھر کے ایک کونے میں روتی رہتی ہیں۔
گھوٹکی کے ایک گاؤں کی سرگرم کارکن زرقا شر کہتی ہیں کہ
یہ قبرستان "غیرت” کے نام پر قتل کی جانے والی خواتین کے لیے مخصوص ہے کیونکہ مرنے کے بعد ان ‘کاری’ خواتین کو عام قبرستانوں میں دفن کرنے کے قابل نہیں سمجھا جاتا ہے۔ ان کی آخری رسومات تک ادا نہیں کی جاتیں، اور بغیر غسل دیے دفنایا جاتا ہے۔ دراصل یہ قبرستان خوف پھیلانے کے لیے بنایا گیا ہے۔
زرقا کے مطابق میڈیا کے ذریعے گزشتہ چند سالوں میں شعور اجاگر کرنے کی وجہ سے "غیرت” کے نام پر قتل اور اس طرح کے قبرستانوں میں تدفین کی شرح میں کمی آئی ہے، لیکن خوف اب بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ "اب بھی اگر کسی کو یہاں دفنایا جاتا ہے تو ظاہر کوئی نہیں کرتا۔ انتظامیہ اس لاقانونیت کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتی۔ لوگ بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ خواتین بے یار و مددگار ہیں۔ ایک طرف مظلوم ہیں تو دوسری طرف خاموشی سے ماتم کرنے والے۔”
ڈپٹی کمشنر گھوٹکی عثمان عبد اللہ ضلع میں ایسے کسی بھی قبرستان کی موجودگی کی تردید کرتے ہیں جبکہ حکومتِ سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے یہ تو تسلیم کیا کہ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات اب بھی صوبے میں ہوتے ہیں، لیکن ایسے کسی قبرستان کی موجودگی سے وہ بھی لاعلم تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے مقامی انتظامیہ سے رپورٹ طلب کریں گے۔
لیکن عورت فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر مہناز رحمٰن کہتی ہیں کہ یہ قبرستان موجود ہے اور انہوں نے چند سال پہلے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن کے دوران یہ قبرستان دیکھا تھا۔
جواب دیں