سال 2021ء کی پہلی شش ماہی کے دوران افغانستان میں بے امنی سے مرنے والی خواتین اور بچوں کی تعداد گزشتہ 12 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
اقوامِ متحدہ نے 2009ء سے باضابطہ طور پر افغانستان میں مارے جانے والے افراد کے اعداد و شمار اکٹھے کرنا شروع کیے تھے اور تب سے اب تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی سال کی پہلی شش ماہی میں اتنی خواتین اور بچوں کا قتل ہوا ہو۔ جاری کردہ رپورٹ کے مطابق جنگ زدہ افغانستان میں سال کے ابتدائی چھ مہینوں کے دوران پُر تشدد کار روائیوں میں شہریوں کی ہلاکت میں گزشتہ سال کی پہلی شش ماہی کے مقابلے میں 47 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ڈیبورا لیونس نے کہا ہے کہ "میں طالبان اور افغان رہنماؤں سے مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ اِس کشیدگی کے بھیانک پہلوؤں اور شہریوں پر پڑنے والے تباہ کُن اثرات پر نگاہ ڈالیں۔ یہ رپورٹ خبردار کرتی ہے کہ اگر اس سال بڑھتے ہوئے تشدد کو نہیں گیا تو افغان شہریوں کی غیر معمولی تعداد ماری جائے گی یا معذور ہو جائے گی ۔”
گزشتہ چند ہفتوں سے ملک کے بیشتر علاقوں پر طالبان کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے اور اس وقت پڑوسی ممالک کو جانے والے کئی اہم سرحدی راستے ان کے ہاتھوں میں ہیں اور کئی صوبائی دارالحکومتوں کا محاصرہ بھی کیے بیٹھے ہیں۔ طالبان کی یہ پیش رفت ایک ایسے موقع پر ہو رہی ہے جب امریکا اور اس کے اتحادیوں کی افواج افغانستان چھوڑ رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کا انخلا اور افغان خواتین کو لاحق خطرات
رپورٹ کے مطابق مئی کے مہینے سے ایسے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ جس میں بین الاقوامی افواج کا انخلا شروع ہوا تھا۔
اقوامِ متحدہ کے مشن برائے افغانستان نے افغانستان میں کشیدگی کے دوران شہریوں کی ہلاکت کے حوالے سے اپنی شش ماہی رپورٹ میں بتایا ہے کہ رواں سال اب تک 1,659 شہری ہلاک اور 3,254 زخمی ہوئے ہیں۔ یہ گزشتہ سال کے انہی مہینوں کے مقابلے میں 47 فیصد زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان ہلاکتوں اور زخمیوں میں 46 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔ جن میں سے 32 فیصد یعنی 468 ہلاکتیں اور 1,214 زخمی بچے جبکہ 14 فیصد یعنی 219 ہلاکتیں اور 508 زخمی خواتین تھیں۔
افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا 95 فیصد تک مکمل ہو چکا ہے اور 31 اگست تک آخری دستہ بھی ملک سے نکل جائے گا۔
دوسری جانب میدانِ عمل میں پیش قدمی کرتے ہوئے طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اقتدار پر اپنی اجارہ داری نہیں چاہتے، لیکن اُن کا اصرار ہے کہ افغانستان میں امن قائم نہیں ہوگا جب تک کابل میں مذاکرات کے نتیجے میں نئی حکومت کا قیام عمل میں نہ آئے اور صدر اشرف غنی کو اقتدار سے نکال نہ دیا جائے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کی سربراہ ڈیبورا لینس نے طالبان اور افغان رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ مذاکرات کی کوششیں تیز کریں۔ افغانوں کی افغانوں کے خلاف لڑائی کا خاتمہ کریں۔ افغانوں کو تحفظ دیں اور بہتر مستقبل کی امید دلائیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان، فائرنگ سے پولیو ویکسین پلانے والی تین خواتین اہلکار جاں بحق
اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر تشدد میں نمایاں کمی نہ ہوئی تو 2021ء اقوام متحدہ کے ریکارڈ پر موجود سب سے ہلاکت خیز سال ثابت ہوگا۔
رواں سال کے دوران صرف مئی اور جون میں ہونے والی شہری ہلاکتیں اِن سے پہلے گزرے چار ماہ جتنی تھیں۔ مئی اور جون میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد 2,392 رہی، جن میں سے 783 ہلاکتیں اور 1,609 زخمی ہیں۔ افغانستان میں گزشتہ 12 سال میں کبھی کسی دو مہینوں میں شہریوں کی اتنی اموات نہیں دیکھی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق مئی اور جون کے مہینوں میں زیادہ تر جنگی کار روائیاں شہروں سے باہر ہوئی ہیں لیکن اقوام متحدہ کو خدشہ ہے کہ شہری علاقوں میں عسکری کار روائیاں بڑھنے کے نتائج شہریوں کے لیے ہلاکت خیز ہوں گے۔ رپورٹ کا کہنا ہے کہ "مسئلہ افغانستان کا عسکری حل ڈھونڈنے سے ملکی عوام کے مسائل بڑھیں گے۔”
رپورٹ نے 64 فیصد ہلاکتوں اور زخمیوں کا سبب غیر ریاستی عناصر کو قرار دیا ہے، جن میں سے 39 فیصد طالبان، تقریباً 9 فیصد داعش اور 16 فیصد نامعلوم افراد کی کار روائیوں کی زد میں آئے۔ افغان افواج 23 فیصد شہریوں کی ہلاکت کی ذمہ دار رہیں، اور حکومت کے حامی مسلح گروہ 2 فیصد کے۔
افغان دارالحکومت کابل میں 8 مئی کو ایک اسکول کے سامنے ہونے والے دھماکے میں 300 شہری ہلاک و زخمی ہوئے، جن میں سے مرنے والی 85 بچیاں بھی شامل تھیں۔ اس واقعے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی تھی۔
Pingback: کیا خواتین کے حقوق کے حوالے سے طالبان کے وعدوں پر یقین کرنا چاہیے؟ - دی بلائنڈ سائڈ
Pingback: خواتین گھروں پر رہیں، جب تک امن و امان یقینی نہ ہو، طالبان کا مطالبہ - دی بلائنڈ سائڈ
Pingback: افغانستان میں چار خواتین کا قتل، ایک حقوقِ نسواں کی معروف کارکن نکلیں - دی بلائنڈ سائڈ