نگارہ شاہین افغانستان میں پیدا ہوئیں لیکن صرف چھ ماہ کی تھیں جب اُن کے خاندان کو ہجرت کرنا پڑی۔ ان کا خاندان جلال آباد میں رہتا تھا، جو افغان خانہ جنگی سے تنگ آ کر 1993ء میں دو دن اور دن رات کے پیدل سفر کے بعد پاکستان پہنچا۔ 18 سال بعد نگارہ نے فیصلہ کیا کہ وہ کابل کی امریکن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کریں گی اور یوں پہلی بار انہوں نے اپنے آبائی وطن میں قدم رکھا۔ اب 28 جولائی کو وہ اولمپکس میں خواتین کے جوڈو ایونٹ میں حصہ لیں گی اور مہاجرین کی اولمپک ٹیم کی نمائندگی کریں گی۔
وہ کہتی ہیں کہ "جب ہم پشاور میں رہتے تھے تو اسکول میں پاکستان کا قومی ترانہ پڑھتے تھے۔ میں پاکستان کا بہت احترام کرتی ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں اس ترانے سے جڑ نہیں پاتی تھی۔ افغانستان واپس جانا ایک بہت مشکل فیصلہ ضرور تھا کیونکہ میرے لیے بہت کچھ نیا تھا اور ماحول سے مطابقت اختیار کرنے میں مجھے کافی وقت لگا۔ ”
اِس مہینے کے آغاز پر قطری دارالحکومت دوحہ میں تربیت کے دوران جب ان کی ٹیم کے ایک عہدیدار کا کرونا ٹیسٹ مثبت آیا تو ان کا اولمپکس میں حصہ لینے کا خواب تقریباً ٹوٹ چکا تھا۔ بتاتی ہیں کہ "ایسا لگ رہا تھا کہ مقابلوں میں حصہ لینے کا موقع کھو ضائع ہو جائے گا لیکن ہم نے ایک خاندان کی طرح مل کر مسائل پر قابو پایا۔”
ایک مہاجر کی زندگی میں آنے والے مسائل کے بارے میں نگارہ نے کہا کہ پشاور اور کابل دونوں جگہ ہم خوف زدہ رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی ان گنت دھمکیوں کا سامنا رہتا ہے۔ فیس بک پر کئی ایسے پیج ہیں جہاں سے میرے خلاف مواد شیئر کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ جب میں ماسٹرز کی ڈگری کے لیے روس گئی تو وہاں بھی ایسا لگا کہ معاشرہ ہمیں قبول نہیں کر رہا۔ زندگی بہت مشکل رہی، لیکن ان تمام حالات نے مجھے اور مضبوط بنایا ہے۔ شاید یہ سب کچھ نہ ہوتا تو آج میں میں نہ ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ میرے والدین نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا اور مجھے آگے سے آگے بڑھنے کی تحریک اور ہمت دی۔
ہر چیلنج سے نمٹتی اور ہر رکاوٹ عبور کرتی پاکستان کی خواتین کھلاڑی
جوڈو کی طرف آنے کے بارے میں نگارہ کا کہنا تھا کہ میں مارشل آرٹس تو کرتی ہی تھی، جس کا آغاز میں نے کراٹے سے کیا تھا لیکن اسلام آباد میں ایک انڈر-14 ٹورنامنٹ میں میرے کوچ نے مجھ سے کہا کہ جوڈو میں حصہ لیں، کیونکہ اس میں زیادہ کھلاڑی نہیں تھی۔ بس یہی سے جوڈو کے سفر کا آغاز ہوا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ اولمپکس میں میری موجودگی سے افغان لڑکیوں کو تحریک ملے گی کہ وہ بھی اولمپکس تک پہنچنے کا خواب دیکھیں۔ "میں نے ان تمام رکاوٹوں کا سامنا کیا ہے، جو انہیں درپیش ہیں۔ لیکن اگر وہ کچھ کرنے کا عزم رکھتی ہیں تو بالکل کر سکتی ہیں، جیسے میں نے کیا۔ یہ مراحل مشکل ضرور ہیں لیکن انسان کی ہمت اور دسترس سے باہر نہیں۔”
اِس مرتبہ اولمپکس میں 12 کھیلوں میں 29 کھلاڑی مہاجرین کی ٹیم کی نمائندگی کر رہے ہیں جن میں نگارہ کے علاوہ دو مزید کھلاڑی بھی افغانستان سے ہیں۔ ایک تائیکوانڈو کے عبد اللہ صدیقی اور دوسری سائیکلنگ میں معصومہ علی زادہ۔ جبکہ دیگر کھلاڑیوں کا تعلق ایران، ایرٹریا، جنوبی سوڈان، سوڈان، شام، عوامی جمہوریہ کانگو، کانگو، کیمرون اور وینزویلا سے ہے۔
جواب دیں