اسلام آباد میں نور مقدم کے وحشیانہ قتل نے جہاں ملک کی اشرافیہ کے چہرے پر موجود نقاب اتار پھینکا ہے، وہیں ان خدشات کو بھی زندہ کر دیا ہے کہ کہیں ایک مرتبہ پھر اثر و رسوخ کے مقابلے پر انصاف کا قتلِ عام تو نہیں ہوگا؟
27 سالہ نور پاکستان کے سابق سفارت کار شوکت مقدم کی صاحب زادی تھیں جو جنوبی کوریا اور قزاقستان میں خدمات انجام دے چکے ہیں جبکہ ان کا قاتل ظاہر جعفر ایک معروف کاروباری شخصیت کا بیٹا ہے اور ادارے میں اہم عہدے پر تعینات تھا۔
پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی نگہت داد کہتی ہیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ ملزم کو ضمانت مل جائے گی اور وہ ملک سے باہر چلا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ملک کی تمام خواتین کے قتل کے مترادف ہوگا اور ہمارے نظامِ انصاف کی قلعی کھول کر رکھ دے گا۔
اسلام آباد پولیس نے ملزم کو 20 جولائی کو گرفتار کیا تھا اور اس کا کہنا ہے کہ وہ حقائق کی بنیاد پر معاملے کی تفتیش کر رہی ہے اور قانون کے مطابق سخت اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
نور مقدم کے والد شوکت مقدم کہتے ہیں کہ انہیں 19 جولائی کو بیٹی کی کال آئی تھی کہ وہ عید کی تیاریوں کے لیے اپنے دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہے۔ ان کا خاندان ظاہر جعفر کو جانتا تھا، جس نے اگلے روز انہیں کال کر کے بتایا کہ نور اس کے ساتھ نہیں ہے۔ لیکن اسی رات 10 بجے پولیس نے ان سے رابطہ کر کے بتایا کہ ان کی صاحب زادی کو قتل کر دیا گیا ہے۔ وہ ظاہر جعفر کے گھر پہنچے جہاں یہ ہولناک واردات انجام دی گئی ہے۔ پولیس کے مطابق جب وہ جائے وقوعہ پر پہنچی تھی تو ظاہر جعفر رسیوں میں بندھا ہوا تھا۔ اس نے مبینہ طور پر نور کو قتل کرنے کے بعد چند لوگوں کو مارنے کی کوشش بھی کی تھی، جنہوں نے اسے رسیوں سے باندھ دیا تھا۔
اسلام آباد میں جنسی ہراسگی اور ریپ کا ہولناک واقعہ، ملزمان گرفتار
اب پولیس ظاہر جعفر اور اس کے گھریلو ملازمین سے تفتیش کر رہی ہے جبکہ والد کا بیان بھی ریکارڈ کیا گیا ہے جو وقوعے کے وقت کراچی میں تھے۔
ایک طرف جہاں پولیس کی کار روائی چل رہی ہے، وہیں اس واقعے پر عوام میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے اور کئی روز سے #Justicefor Noor کا ٹرینڈ ٹوئٹر پر چل رہا ہے۔ اسلام آباد کی اشرافیہ سے قربت رکھنے والے چند افراد نے سوشل میڈیا پر انکشاف کیا ہے کہ ظاہر جعفر اپنے حلقوں میں ہراساں کرنے والا اور شکاری ذہنیت رکھنے والا فرد سمجھا جاتا تھا اور لگتا ہے کہ اس نے نور مقدم کی معصومیت کا فائدہ اٹھا کر اسے پھنسایا اور بالآخر قتل کر دیا۔ چند لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ظاہر جعفر کو جانتے ہیں، اسے دماغی مرض شیزوفرینیا لاحق ہے۔
لیکن پولیس کہتی ہے کہ جب ظاہر کو گرفتار کیا گیا تھا تو وہ مکمل ہوش و حواس میں تھا اور اسے اپنے کیے گئے جرم کا بھرپور ادراک بھی تھا۔ انہوں نے اس خبر کی بھی تردید کی کہ وہ نشے کی حالت میں تھا اور کہا کہ اس کی ذہنی حالت جیسی بھی ہو، اتنے بھیانک جرم کا جواز نہیں بن سکتی۔
پاکستان میں گزشتہ چند ہفتوں میں خواتین کے خلاف کئی بھیانک جرائم سامنے آئے ہیں، اسلام آباد ہی میں عثمان مرزا نامی مجرم کے ہاتھوں ایک جوڑے کو ہراساں کرنے اور ان کے ساتھ ریپ کرنے کا واقعہ، پھر حیدر آباد میں چار بچوں کی ماں قرۃ العین کا اپنے شوہر اور پشاور میں صائمہ نامی خاتون کا اپنے پولیس کانسٹیبل شوہر کے ہاتھوں قتل، یہ سب اسی ہفتے کے واقعات ہیں۔
جواب دیں