مصر نے انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف اپنے سالہا سال سے جاری بدترین اقدامات پر امریکی تنقید کے بعد بالآخر صحافی اسراء عبد الفتاح سمیت چھ افراد کو رہا کر دیا ہے۔
صدر عبد الفتاح سیسی نے 2014ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے آزادئ اظہار پر قدغن لگا رکھی ہے، جس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ سیاسی اختلاف پر ہزار سیاسی کارکن اور صحافی قیدو بندمیں ہیں۔
گزشتہ ہفتے امریکا نے مصر کو خبردار کیا تھا کہ وہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کو نشانہ نہ بنائے کیونکہ اس سے مصر کو ہتھیاروں کی فروخت کے معاملات متاثر ہوں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات مصر کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر بین الاقوامی دباؤ کو کم کرنے کے لیے اٹھائے جا رہے ہیں۔
انقلابِ 2011ء کی علامت بن جانے والی صحافی اسراء کی رہائی تقریباً 22 ماہ تک تحویل میں رہنے کے بعد عمل میں آئی ہے۔ اسراء سمیت رہائی پانے والے تمام ہی افراد کا مقدمہ ابھی شروع بھی نہیں کیا گیا تھا۔
اسراء کے علاوہ رہا ہونے والی معروف شخصیت میں پاپولر الائنس پارٹی کے رہنما عبد الناصر اسمٰعیل، حکومت پر تنقید کرنے والے صحافی جمال الجمال، معروف وکیل اور سرگرمِ عمل کارکن ماہینور المصری، صحافی معتز ودنان اور مصطفیٰ عصار شامل ہیں۔
مصر کا ٹک ٹاکر خواتین پر کریک ڈاؤن، دو انفلوئنسرز کو طویل سزائیں بھی سنا دیں
43 سالہ اسراء کو اکتوبر 2019ء میں جعلی خبریں پھیلانے اور دہشت گرد گروپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے الزامات پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی تھی۔ انہوں نے حسنی مبارک کے دور میں بھی قید بھگتی تھی اور 2012ء میں برسرِ اقتدار آنے والی مصر کی پہلی جمہوری حکومت کی بھی مخالفت کی۔
ماہینور مصری کو ستمبر 2019ء میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر بھی جعلی خبریں شائع کرنے اور دہشت گردوں کے ساتھ تعاون کے الزامات لگائے گئے۔ معتز ودنان اور مصطفیٰ عصار کو غیر قانونی گروپوں میں شمولیت اختیار کرنے اور جعلی خبریں لگانے کے الزامات پر پکڑا گیا۔ اتوار کو رہائی پانے والے عبد الناصر اسمٰعیل کو دہشت گرد گروپ میں شمولیت کے الزام پر ستمبر 2019ء میں گرفتار کیا گیا تھا جبکہ جمال الجمال کو فروری میں حراست میں لیا گیا تھا۔
ان تمام افراد پر لگائے گئے یہ الزامات اب بھی باقی ہیں اور تحقیقات ہونے تک انہیں رہا کیا گیا ہے۔ بین الاقوامی دباؤ کے علاوہ ان کی رہائی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مصری قانون کے تحت مقدمہ چلانے سے پہلے گرفتاری کو زیادہ سے زیادہ دو سال تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
انقلابِ مصر کے 10 سال، حقوقِ نسواں کی تحریک کو آج بھی جدوجہد کا سامنا
یہی وجہ ہے کہ پروفیسر سیاسیات، جامعہ قاہرہ مصطفیٰ کامل سید کہتے ہیں کہ یہ قدم ملک میں مقامی سطح پر کشیدہ حالات کو بہتر بنان اور مصر کی بیرونِ ملک ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ لیکن میرا نہیں خیال کہ اس سے صورتِحال میں کوئی بہتری آئے گی کیونکہ مصر میں سیاسی قیدیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
ابھی اتوار کو ہی صدر سیسی کو فیس بک پر تنقید کا نشانہ بنانے والے معروف صحافی عبد الناصر سلام کو گرفتار کیا گیا ہے۔ سرکاری اخبار ‘الاہرام’ کے سابق ایڈیٹر اِن چیف عبد الناصر نے دریائے نیل پر ایتھوپیا کے ڈیم بنانے کے معاملے پر صدر سیسی کو مصری مفادات کو نقصان پہنچانے کا ذمہ دار قرار دیا اور ان سے فوراً استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
انسانی حقوق کے حوالے سے مصر کا ریکارڈ انتہائی مایوس کن ہے اور یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ سمیت کئی ممالک اس پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ مارچ میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں 31 ممالک نے مصر میں کو تنقید کا نشانہ بنایا، خاص طور پر مصری حکومت کی اپنے ناقدین کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قوانین کے بڑھتے ہوئے استعمال کی۔ اس میں یورپی ممالک کے علاوہ امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھی شامل تھے۔
جواب دیں