یورپی یونین کی ایک اعلیٰ ترین عدالت نے قرار دیا ہے کہ مسلمان خواتین ملازمین کو حجاب پہننے پر پابندی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مقدمہ جرمنی میں دو مسلمان خواتین کی جانب سے لایا گیا تھا کہ جنہیں حجاب پہننے کی وجہ سے ملازمت سے نکالا گیا تھا۔ ایک خاتون ہیمبرگ میں چائلڈ کیئر فراہم کرنے والے ادارے میں خصوصی بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں جبکہ دوسری خاتون ادویات فروخت کرنے والے ایک ادارے میں کیشیئر تھیں۔ دونوں خواتین ملازمت کے آغاز میں اسکارف نہیں پہنتی تھیں، لیکن بعد ازاں انہوں نے حجاب کرنے کا فیصلہ کیا۔
عدالت کی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں خواتین کو کہا گیا تھا کہ انہیں اس کی اجازت نہیں ہے اور وہ حجاب کے بغیر کام پر آئیں۔
لکسمبرگ میں واقع یورپی یونین کی عدالت کو دونوں مقدمات میں فیصلہ کرنا تھا کہ آیا کام کی جگہ پر حجاب پہننے پر پابندی دراصل آزادئ مذہب کی خلاف ورزی ہے یا صارفین کو غیر جانب داری کا احساس دلانے کے لیے اس کے استعمال کرنے پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔
فیصلے کے مطابق حجاب پر پابندی ممکن ہے، اگر کام کروانے والے ادارے کو اپنی "غیر جانب دارانہ ساکھ” پیش کرنے کی ضرورت ہو تو۔ عدالت کا کہنا ہے کہ کام کی جگہ پر کسی سیاسی، فلسفیانہ یا مذہبی عقیدے کا واضح اظہار کرنے والے ملبوسات پر پابندی کا جواز پیش کیا جا سکتا ہے، اگر کام کرنے والا ادارہ سماجی تنازعات سے بچنا چاہتا ہو اور صارف کے سامنے اپنی غیر جانب دارانہ ساکھ رکھنا چاہتا ہو۔ لیکن اس کے لیے واقعتاً اس کی ضرورت ہونی چاہیے۔
نسل پرستی کے خاتمے اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی شائستہ عزیز کہتی ہیں کہ عدالت کا فیصلہ نسل پرستی اور صنفی امتیاز کے پھیلاؤ کو ظاہر کرتا ہے۔
مسلمان خواتین کے لباس خاص طور پر حجاب پر یورپ کے خیالات کی جڑیں اسلام سے خوف، نسل پرستی اور زن بیزاری میں پیوست ہیں۔
"ایک ایسے وقت میں جب پورا بر اعظم کووِڈ-19 سے متاثر ہے، عدم مساوات اور سماجی بے انصافی بڑھتی ہی جا رہی ہے – آخر حجاب اور مسلمان خواتین ہی موضوعِ گفتگو کیوں ہیں؟ دراصل ایسے سیاست دان انتہائی دائیں بازو کے خیالات، بڑھتی ہوئی مسلمان نفرت اور اسلاموفوبیا کو جلا بخش رہے ہیں۔”
اوپن سوسائٹی منصوبے کی مریم حمادون کا کہنا ہے کہ مذہبی لباس پر پابندی لگانے والے قوانین، پالیسیاں اور برتاؤ سب دراصل اسلاموفوبیا ہیں، جن کا مقصد مسلمان خواتین کو عوامی زندگی سے باہر کرنا یا انہیں منظرِ عام سے غائب کرنا ہے۔
غیر جانب داری کے نام پر مسلمان خواتین کے ساتھ امتیاز برتا جا رہا ہے اور اس رویّے کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک قانون جو توقع رکھے کہ سب لوگ ایک جیسا حلیہ اپنائیں گے، غیر جانب دارانہ قانون نہیں سمجھا جائے کا۔ یہ جان بوجھ کر ایسے لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک رکھتا ہے جو بظاہر مذہبی نظر آتے ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ایسی پالیسیاں "نسلی و مذہبی اقلیت” سے تعلق رکھنے والی خواتین کو بدنام کرتی ہیں اور اُن کے خلاف نفرت انگیز جرائم اور تشدد کو مہمیز دیتی ہے۔ یہ اقدامات نسل پرستی، غیر ملکیوں سے نفرت اور نسلی عدم مساوات کے رجحان کو مزید پیچیدہ کر رہے ہیں۔
یورپی یونین کی ایک عدالت 2017ء میں بھی فیصلہ دے چکی ہے کہ ادارے مخصوص صورتوں میں اپنی ملازمین کو حجاب اور دیگر واضح مذہبی علامات پہننے سے روک سکتے ہیں ۔
2014ء میں فرانس کی اعلیٰ ترین عدالت نے ایک نجی دار الاطفال کی با حجاب مسلمان خاتون کو ملازمت سے نکالنے کے فیصلے کو درست قرار دیا تھا۔
یورپی یونین میں فرانس یورپ میں سب سے بڑی مسلم برادری رکھتا ہے، جس نے 2004ء میں سرکاری اسکولوں میں حجاب پہننے پر پابندی لگائی تھی جبکہ جرمنی میں 50 لاکھ سے زیادہ مسلمان بستے ہیں اور یوں وہ سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں۔
Pingback: ویسے میرا جسم میری مرضی، لیکن حجاب پر مرضی نہیں چلے گی، آخر ایسا کیوں؟ - دی بلائنڈ سائڈ